مزید خبریں

تقویٰ کا گھمنڈ

حضرت عامر بن واثلہؓ سے روایت ہے کہ چند مسلمان ایک جگہ بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک شخص نے پاس سے گزرتے ہوئے سلام کیا، ان لوگوں نے اسے سلام کا جواب دیا۔ جب ان کے پاس سے گزر گیا تو ان میں سے ایک آدمی نے کہا: اللہ کی قسم! میںاس آدمی سے اللہ کی خاطر بُغض رکھتا ہوں۔ اہلِ مجلس نے کہا: واللہ تم نے بُری بات کی ہے، ہم اسے بتلا دیتے ہیں۔ ایک آدمی سے انھوں نے کہا: اٹھو! اور اسے بتلادو۔ وہ اٹھ کرگیا اور جلدی سے اس کے پاس پہنچا اور وہ بات اُسے بتلا دی، جو اس کے بارے میں بات کرنے والے نے کی تھی۔بات سن کروہ آدمی واپس چلا گیا اور رسول اللہؐ کی خدمت میں پہنچ کر عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میں مسلمانوں کی مجلس کے پاس سے گزرا، ان میں فلاں آدمی بھی تھا۔ میں نے اہلِ مجلس پر سلام پیش کیا، انھوں نے سلام کا جواب دیا۔ جب میں ان کے پاس سے گزر گیا تو ان میں سے ایک آدمی نے مجھے آپکڑا اور مجھے اطلاع دی کہ فلاں آدمی نے کہا ہے کہ اللہ کی قسم میں اس سے اللہ کے لیے بُغض رکھتا ہوں۔ آپ اس سے پوچھیے، کس وجہ سے یہ مجھ سے بُغض رکھتا ہے؟ رسولؐ اللہ نے اسے بلایا اور جو شکایت اس نے کی تھی، اس کے بارے میں اس سے پوچھا۔ اس شخص نے اپنی بات کا اعتراف کیا اور کہا: یارسولؐ اللہ! میں نے یہ بات کی ہے۔ رسولؐ اللہ نے پوچھا: کس بنا پر تم اس سے بُغض رکھتے ہو؟ اس نے کہا: میں اس کا پڑوسی ہوں اور مجھے اس کے حالات کا پتا ہے۔ اللہ کی قسم! میں نے اسے فرض نماز کے علاوہ کوئی نماز پڑھتے نہیں دیکھا۔ یہ فرض نماز تو سارے نیک وبد پڑھتے ہیں۔ اس شخص نے جواباً کہا آپ اس سے پوچھیے کہ کیا اس نے کبھی مجھے دیکھا ہے کہ میں نے نماز کو اس کے وقت سے مؤخر کیا ہو؟ یا رکوع وسجود ٹھیک نہ کیا ہو؟ رسولؐ اللہ نے اس سے پوچھا تو اس نے جواب دیا، نہیں ایسا تو کبھی نہیں کیا۔ پھر کہا اللہ کی قسم میں نے اسے صرف رمضان المبارک کے روزے رکھتے ہوئے دیکھا ہے جو نیک وبد سارے رکھتے ہیں۔ اس نے کہا: یارسولؐ اللہ! اس سے پوچھیے کہ اس نے کبھی دن میں مجھے افطار کرتے ہوئے پایا ہے؟ اس کے حق میں کمی کرتے ہوئے دیکھا ہے؟ رسولؐ اللہ نے اس سے پوچھا تو اس نے جواب دیا: نہیں۔ پھر اس نے کہا: میں نے اسے نہیں دیکھا کہ اس نے زکوٰۃ کے علاوہ جو نیک و بد سارے دیتے ہیں، کبھی سائل کو کچھ دیا ہو۔ اس نے کہا یارسول اللہ! اس سے پوچھیے ’’کیا میں نے کبھی زکوٰۃ کا زیادہ یا تھوڑا حصہ چھپایا ہے؟ یا کبھی میں نے زکوٰۃ طلب کرنے والے سے ٹال مٹول سے کام لیا ہے‘‘۔ رسولؐ اللہ نے اس سے پوچھا تو اس نے جواب دیا: زکوٰۃ میں تو کچھ کمی نہیں کی۔ تو رسولؐ اللہ نے فرمایا: کھڑے ہوجاؤ، میں نہیں سمجھتا کہ تمھارا رویہ صحیح ہے۔ شاید یہ تجھ سے بہتر ہے۔ (الفتح الربانی)
تقویٰ کے گھمنڈ میں مبتلا ہوکر کسی مسلمان خصوصاً فرائض وواجبات کے پابند شخص کوگھٹیا سمجھنا، اس سے بُغض رکھنا ناپسندیدہ بات ہے۔ نبیؐ نے نہایت نرمی سے اس پر متنبہ فرمایا۔ آج کل کسی کے متعلق بات کی جائے تو لڑپڑتا ہے۔ لیکن اسلام نے ایسے اخلاق کی تعلیم دی ہے کہ ایک آدمی دوسرے کے بارے میں اگر سخت بات کرتا ہے تو دوسرے مسلمان بھائی اس کی غائبانہ مدد کرتے ہیں۔ بات کرنے والے کو اس کی زیادتی پر تنبیہہ کرتے ہیں، پھر جس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اسے اس کا پتا دیتے ہیں۔ وہ غصے سے لال پیلا ہونے کے بجاے اور خود کوئی انتقام لینے کے بجاے نبیؐ کی جناب میں استغاثہ دائر کرتا ہے۔ آپ باقاعدہ مقدمے کی سماعت فرماتے ہیں اور دونوں کی باتیں سننے کے بعد مدّعا علیہ کے خلاف فیصلہ دے دیتے ہیں لیکن اس طرح کہ مدّعا علیہ کی ڈانٹ ڈپٹ اور زجر و توبیخ کے بجاے اتنا فرمادیتے ہیں کہ میں تمھاری بات کی تائید نہیں کرسکتا۔ شاید وہ تجھ سے بہتر ہو۔ یہ نرمی نبیؐ کے اخلاقِ کریمہ کا مظہر ہے۔ یہ واقعہ صبر وتحمل، صاف گوئی اور وقار وسکون کا بہترین نمونہ ہے۔ مدعی، مدّعا علیہ اور موقع کے گواہ سب نے اپنا اپنا کردار بہترین انداز میں اداکیا۔