مزید خبریں

انسان اور گھر

جنت ارضی پر آمد کے ساتھ ہی انسان اپنے لیے موزوں رہایش کی تعمیر وتلاش میں مصروف ہوگیا۔ غاروں کو مسکن بنانے والا انسان جلد ہی تعمیراتی علوم و فنون میں مہارت بڑھاتا چلا گیا۔ اس عظیم خلاق کی ودیعت کردہ ذہانت اور اہلیت کی بنیاد پر نئی نئی اختراعات کا شوقین غاروں اور گھاس پھوس کے جھونپڑوں سے نکل کر عظیم الشان محلات‘ باغات‘ اہرام اور فلک بوس عمارتیں تعمیر کرنے لگا۔ ماحول‘ موسم‘ فیشن اور وقت کے تقاضوں کے مطابق رہایشی بستیاں تعمیر کی جانے لگیں۔ مکانوں کی تزئین و آرایش میں مسابقت شروع ہوگئی۔ گھر ایک بنیادی ضرورت ہی نہیں‘ معیارِ زندگی کی علامت قرار پایا۔ انسان کی ساری زندگی کی تگ و دو ایک آرام دہ‘ شان دار گھر کے لیے قرار پانے لگی۔ جہاں سے اسے تحفظ حاصل ہو‘ جو اس کی خلوتوں کا پردہ پوش‘ اس کے وقار اور ذوق کا آئینہ دار ہو!
گھر کی چار دیواری میں ایک شخص کی اپنی سلطنت ہے جہاں کا وہ خود حاکم ہے‘ اس کو اپنی من مانی کی آزادی ہے۔ گھر کے معاملے میں انسان کی ضرورت کی کوئی حد نہیں۔ کہیں تو ایک مختصر سا گھاس پھونس کا جھونپڑا اس کی تمام ضروریات کے لیے کافی نظرآتا ہے اور کہیں ہزاروں ایکڑ پر مشتمل وسیع و عریض محلات بھی اس کی طمع کی تسکین سے قاصر ہوتے ہیں جن کی تزئین و آرایش اور انتظام و انصرام پر ہی لاکھوں ڈالر ماہانہ اٹھ جاتے ہیں اور پھر معیار برقرار رکھنے اور حفاظت و انتظام کے لیے مزید لاکھوں ڈالر درکار ہوتے ہیں۔
انسانی ضروریات کی وسعت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ ایک آراستہ و پیراستہ گھر ان کی تکمیل سے قاصر ہے۔ وہ گرد ونواح میں ایک پوری بستی کا محتاج ہے‘ دوسرے انسانوں کے تعاون کا متلاشی ہے۔ وہ اپنے دکھ سکھ میں دوسروں کو شریک دیکھنے کا خواہش مند ہے۔ یوں ایک معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ مختلف گھروں کی تعمیر سے ایک ماحول وجود میں آتا ہے۔ ایک ماحول‘ ایک معاشرے میں رہنے والے افراد ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کے لیے راحت رساں ہوتے ہیں اور باعث آزار بھی! اچھی بستی اور معاشرہ وہ ہے جہاں کے رہنے والے ایک دوسرے کے لیے زیادہ سے زیادہ مددگار ہوں۔ ایک دوسرے کو دکھ دینے والے نہ ہوں۔ اسلامی معاشرت کا بنیادی اصول یہی ہے:
’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں‘‘۔ (حدیث)
بستیوں کی اس بنیادی ضرورت کے پیشِ نظرایک مہذب معاشرے میں انسانوں کی بودوباش اور تعمیروتشکیل کے کچھ بنیادی اصول و ضوابط طے کر دیے جاتے ہیں تاکہ افراد ایک دوسرے کے لیے باعث راحت ہوں۔ گھروں اور عمارتوں کی تعمیر کے لیے مقتدر انتظامیہ کی جانب سے تعمیراتی ضوابط (rules building) مقرر ہوتے ہیں۔ ملک کے بڑے شہروں کے ترقیاتی ادارے ان ضوابط کے اجرا اور عمل درآمد کی نگرانی پر مامور ہیں۔ قصبوں میں یونین کونسل یا ضلعی حکومتوں کی ذمے داری ہے کہ وہ ان ضوابط پر عمل درآمد یقینی بنائیں۔
کسی عمارت کی تعمیر میں دو بنیادی اصول پیشِ نظر رکھنا لازم ہے:
1۔عمارت صحت و صفائی کے اصولوں کے مطابق تعمیر ہو۔ اس میں روشنی اور ہوا کی آمدورفت کا مناسب انتظام ہو۔
2۔عمارت کی تعمیر پڑوس کے لیے باعث آزار نہ ہو۔
ان اصولوں کی بنیاد پر ہی شہروں اور بستیوں کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے‘ حتیٰ کہ پورا قصبہ یا شہر ایک وجود کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ بستیاں اور شہر کسی قوم کی تہذیب و تمدن کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ’’انسان شہر تعمیر کرتے ہیں اور شہر انسان بناتے ہیں‘‘۔
شہر بسانا ایک سائنس ہے اور آرٹ بھی۔ شہر کچھ متعین حقائق مدنظر رکھ کر ہی تعمیر کیے جاتے ہیں۔ بستیوں کو حسن‘ ترتیب اور توازن عطا کرنا ایک بڑا آرٹ ہے۔ کسی شہر کی تعمیرکی منصوبہ بندی میں جمالیاتی ذوق کی تسکین ہی مقصود نہیں ہوتی بلکہ شہریوں کی مناسب جسمانی اور ذہنی نشوونما کے لیے سازگار ماحول کی فراہمی ایک اہم ضرورت ہے۔