مزید خبریں

اعتکاف

انسان نہ محض جسم و مادہ ہے اور نہ صرف جان و روح بلکہ دونوں کے ایک مرتب مجموعے کا نام ہے۔ جس طرح جسم و مادہ کا ایک عالَم ہے اور اس کی صحت و مرض کے خاص قوانین ہیں‘ ٹھیک اسی طرح ایک مستقل عالَم جان وروح کا ہے‘ اور روح کی صحت و مرض‘ ضعف و قوت‘ بالیدگی و پڑمردگی‘ ترقی و تنزلی کے لیے بھی کچھ خاص قواعد اور ضابطے مقرر ہیں۔ شریعت اسلامی ان دونوں عالموں کے متعلق ضروری ہدایتوں کی جامع ہے۔

جسم کو ہلاک کردینا انسان کے لیے خدا کی مرضی نہیں البتہ جسم کو روح کا ماتحت و مطیع رکھنا عین منشاے خداوندی ہے۔ نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃ وغیرہ تمام عبادتوں سے مقصود صرف اسی قدر ہے کہ روح کی لطافتِ طبیعی قائم رہے اور مادے کی کثافتیں اس کی اصلی سرشت پر غالب نہ آنے پائیں کہ یہی راہِ عبدیت‘ یہی طریق معرفت‘ یہی مسلک خود شناسی ہے۔

روح کا انتہائی کمال یہ ہے کہ جسم سے الگ اور مجرد ہو کر نہیں بلکہ جسم کے ساتھ مراتب ِترقی طے کرے۔ ٹھیک اسی طرح یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ روح کی رفتارِ ترقی میں سب سے زیادہ رکاوٹیں بھی جسم ہی پیدا کرتا رہتا ہے۔ غصہ‘ کینہ‘ حسد‘ حرص وغیرہ جسم ہی کی ترکیب کا نتیجہ ہیں اور یہی وہ چیزیں ہیں جو روح کی کمزوری و پڑمردگی کا باعث ہوتی ہیں‘ اور اس کی طبیعی پاکیزگی و صفائی کو گدلا کرتی رہتی ہیں۔

روح کی صحت و پاکیزگی و بالیدگی برقرار رکھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ جسم کو ہلاک کیے بغیر کبھی کبھی مادی دنیا کے تعلقات کو کمی کے انتہائی نقطے پر پہنچا دیا جایا کرے۔ شریعت کی بولی میں اس صورتِ پرہیز کا نام روزہ ہے‘ اور اس ’’پرہیز‘‘ کے شرائط جب ذرا زیادہ سخت کر دیے جاتے ہیں تو اس کا نام ’’اعتکاف‘‘ پڑ جاتا ہے۔ اعتکاف کے لفظی معنی کسی مکان کے اندر اپنے تئیں مقید کردینے کے ہیں۔ اصطلاح شریعت میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ انسان عبادت کی غرض سے مسجد میں قیام و سکونت کو لازم قرار دے لے۔

مسجد اس مکان کو کہتے ہیں جو محض یاد الٰہی و عبادت خداوندی کے لیے مخصوص ہو۔ اس میں بیٹھ جانے کے معنی ہی یہ ہیں کہ بندے نے اپنے تعلقات سب طرف سے توڑ کر صرف اپنے خالق سے جوڑ رکھے ہیں۔ اور جس وقت تک وہ اس زاویہ نشینی کی حالت میں ہے وہ نہ کسی کا دوست ہے نہ عزیز‘ نہ حاکم ہے نہ محکوم‘ نہ بھائی ہے نہ شوہر‘ نہ رفیق ہے نہ رقیب‘ بلکہ بندہ ہے اور محض بندہ۔ عورت کی خواہش کرنا اس کے لیے ممنوع‘ غیر ضروری گفتگو اس کے لیے ناجائز‘ کھانا پینا صرف اسی حد تک جائز جو جسم کو ہلاک ہونے سے محفوظ رکھ سکے۔ دوران اعتکاف بندہ‘ گویا اپنے تصور میں ہر وقت دربارِ خداوندی میں حاضر رہتا ہے۔ اسی لیے ہر وہ شے جو اس دربار کے منافی ہے‘ اس کے لیے ناجائز ہے۔

چراغ اسی وقت روشن ہوسکتا ہے جب اس میں تیل موجود ہو‘ انجن جب ہی حرکت کرسکتا ہے جب اس میں برقی یا دخانی قوت کا ذخیرہ موجود ہو‘ جسم کی زندگی جب ہی قائم رہ سکتی ہے جب اسے غذا پہنچتی رہے۔ روح کی زندگی بھی جب ہی قائم و برقرار رہ سکتی ہے جب اسے اپنے مزاج و سرشت کے مطابق غذا پہنچتی رہے۔ اور روح کی غذا یہی ہے کہ کبھی کبھی اسے مادی کثافتوں کے ماحول سے دْور رکھ کر اس کی فطری لطافت کو اْبھرنے اور طبیعی پاکیزگی و شرافت کو چمکنے کا پورا موقع دیا جائے۔
دنیا کا سب سے بہتر و برتر انسان علیہ الصلوٰۃ والسلام‘ خلوت و جلوت دونوں کے آئین و انداز کا پورا رمز شناس تھا۔ رمضان المبارک کے آخر عشرے میں اعتکاف عادتِ شریف میں داخل تھا۔ ماہِ صیام سارے کا سارا عبادت و ذکر الٰہی میں گزرتا تھا۔ لیکن آخر کے 10 دن میں آتشِ شوق اور زیادہ تیز ہو جاتی تھی۔ ازواج واصحاب سے بے تعلق ہو کر یہ پورا عشرہ مسجد ہی کی چار دیواری کے اندر گزرتا تھا‘ اور بندے کو اپنے معبود کے ساتھ خلوت نشینی کے سارے لْطف حاصل ہوتے تھے۔

ہماری آج ایک بڑی شامت یہ ہے کہ ہم اپنے تئیں ’’جنگ بدر‘‘ شروع کرنے کے لیے آمادہ پاتے ہیں لیکن نہیں سوچتے کہ جنگ بدر سے بہت پیش تر ایک منزل ’’غارحرا‘‘ کی بھی طے ہو چکی تھی۔ واقعات میں ترتیب قائم رکھنا یہ بھی بجائے خود ایک بہت اہم شے ہے۔ کسی واقعے کے اجزا سب وہی رہیں‘ لیکن اگر اجزا کی ترتیب الٹ دی جائے تو وہ واقعہ سچ سے جھوٹ میں تبدیل ہو جاتا ہے چہ جائیکہ بعض اجزا کو سرے سے نظرانداز کر دینا!

آج ہم میں انجمنوں کی کمی نہیں‘ کانفرنسوں کا قحط نہیں‘ جلسوں کی سرد بازاری نہیں۔ لیکن اس ذوقِ انجمن آرائی و جلسہ سازی کے ساتھ کتنے ایسے ہیں جو اپنے اْمّی ہادیؐ کی پیروی میں رمضان المبارک کو اس کی شرائط کے ساتھ گزارنا اور پھر اعتکاف کرنا ضروری سمجھتے ہیں؟ کیا رسولؐ خدا کا یہ فعل عبث ولاحاصل ہوتا تھا؟ کیا اس کی ضرورت ان کو تھی؟ مگر ہمارے تہذیب یافتہ دل اور تعلیم یافتہ دماغ اس سے بے نیاز ہیں؟ کیا ہم نے کبھی اس عارضی زاویہ نشینی کا تجربہ کر کے دیکھا ہے‘ اور یہ تجربہ ناکام و لاحاصل رہا ہے؟

حاشا یہ مقصود نہیں کہ ساری قوم اجتماعی زندگی کو چھوڑ کر اپنے اپنے زاویوں کے اندر ہمیشہ کے لیے بیٹھ رہے لیکن یہ گزارش ضرور ہے کہ دوسروں کی اصلاح و ہدایت سے اپنی اصلاح و ہدایت ترتیباً مقدم ہے‘ اور اپنی اصلاح کا ایک اہم ذریعہ یہ ہے کہ ہم اپنے مقدس ہادیؐ کے طریقے کے موافق کبھی کبھی ذرا دنیا کی کش مکش سے کنارہ کش ہو کر خود اپنے نفس کا جائزہ لینے‘ اپنے اعمال کا احتساب کرنے اور دنیا کے پاک و بے نیاز خالق کے حضور میں اپنی کمزوریوں اور خطائوں کا اعتراف کرنے‘ اور آئندہ کے لیے اس کی توفیق طلب کرنے میں کچھ وقت صرف کیا کریں۔

چراغ پانی سے نہیں‘ تیل سے روشن رہتا ہے۔ ہمارے اندر اگر روحانی صفائی و پاکیزگی کا تیل ختم ہوچکا ہے اور اس کی جگہ نمایش‘ نفسانیت و جاہ پسندی کے پانی نے لے لی ہے تو کیونکر ہم سے ہدایت کی روشنی پیدا ہو سکتی ہے؟ ہر فرد سے پہلے سوال خود اس کی ذاتی زندگی کے متعلق ہوگا۔ یہ زندگی کانفرنسوں اور مجموعوں کی خود نمائیوں کے اندر نہیں سنورتی‘ اس کے سدھارنے اور سنوارنے کے لیے ضروری ہے کہ کبھی کبھی تو بندہ بے حجاب و بے واسطہ اپنی حضوری اس بڑے دربار میں محسوس کرے جہاں پرسش صرف خلوص و راستی کی ہوتی ہے۔ بحث و گفتگو یا مناظرہ و تردید کی حاجت نہیں۔ صرف تجربے کی ضرورت ہے۔ ان شاء اللہ ہر حال میں اعتکاف کا تجربہ مفید ہی نتائج پیدا کرے گا!