مزید خبریں

جرم اور بغاوت

ایک چیز غفلت و تساہل ہے اور ایک انکار و تمرد ہے۔ بلاشبہ پرانے لوگوں میں بھی ہزاروں اشخاص ایسے موجود ہیں جن میں تسلطِ نفس وشیطان سے معاصی و ذنوب کی نہایت کثرت ہوگئی ہے اور ان پر غفلت و تساہل نے ایک دینی موت طاری کر دی ہے۔ علیٰ الخصوص امرا و رؤسا مسلمین کہ ان میں سے اکثر اَحکام و اَوامر شریعہ سے بے پروا و غافل ہیں۔ تاہم ان میں ایک فرد بھی ایسا بمشکل ملے گا جو احکامِ الٰہی کا صریح استہزا کرتا ہو، اور اللہ کے شعائر کی بے باکانہ ہنسی اْڑاتا ہو۔ مگر میں نے ’اس متمدن و روشن خیال‘ طبقہ میں بکثرت ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جو علانیہ اَحکام اسلامیہ کی ہنسی اْڑاتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں کہ لوگ کیسے احمق اور نادان ہیں جو مفت میں بھوکے رہتے ہیں اور اپنے نفس کو تکلیف و مشقت میں ڈالتے ہیں: ’’وہ کہتے ہیں: یہ تو صرف کی دنیا کی ہی زندگی ہے، ہم مریں گے اور زندہ رہیں گے اور نہیں ہلاک کرتی ہمیں مگر زمانہ (کی گردش)‘‘۔ (الجاثیہ: 24)

’’ان ملحدوں سے کہو کہ آیا تم اللہ، اس کی آیات اور اس کے رسولوں کے ساتھ ہنسی کرتے ہو‘‘۔ (التوبہ: 65)
آغازِ اسلام میں یہود و نصاریٰ اَحکامِ شریعت کی ہنسی اڑاتے تھے، جن کا حال سورہ مائدہ میں اللہ نے فرمایا ہے:
’’اے مسلمانو! ان لوگوں کا رشتہ نہ پکڑو جنہوں نے تمہاری شریعت کو ہنسی ٹھٹھا اور ایک طرح کا کھیل بنا لیا ہے‘‘۔ (المائدہ: 57) ان کا حال یہ تھا کہ: ’’جب تم نماز کے لیے صدا بلند کرتے ہو تو یہ ہنسی اور ٹھٹھا کرتے ہیں۔ یہ اس لے کہ ان کی عقلیں کھو گئی ہیں‘‘۔ (المائدہ: 58)

سورۂ بقرہ میں انہیں کی نسبت فرمایا ہے: ’’کافروں کی نظروں میں صرف دنیا کی زندگی ہی سما گئی ہے، وہ ان لوگوں کے ساتھ تمسخر کرتے ہیں جو اللہ پر ایمان لاتے ہیں‘‘۔ (البقرہ: 212)

سو آج یہ حالت خود مسلمانوں کا یہ نیا متمدن فرقہ ہمیں دکھلا رہا ہے، اور ضمناً خبر دیتا ہے کہ اس کا شجرۂ نسبِ ضلالت کن لوگوں سے ملتا ہے؟ نماز سے بڑھ کر اس گروہ کے لیے کوئی مبغوض و مکروہ حکم نہیں، کیونکہ علاوہ ایک وحشیانہ حرکت کرنے کے اس کے اکثر اجزا ایسے ہیں جو متمدن زندگی کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتے۔ وضو سے شرٹ کی آستینوں کا کلف خراب ہو جاتا ہے، اور سجدے میں جانے سے پتلون پر گھٹنوں کے پاس شکنیں پڑ جاتی ہیں : ’’جب ان سے رکوع کرنے کو کہا جاتا ہے تو رکوع بجا نہیں لاتے‘‘۔ (المرسلات: 49)

جب نماز کے ساتھ یہ سلوک ہے تو روزے کی نسبت پوچھنا ہی عبث ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ موجودہ متمدن زندگی نے دن میں پانچ مرتبہ اقلاً غذا کا حکم دیا ہے، کوئی وجہ نہیں کہ ایک مہینے تک کے لیے انسان بالکل غذا ترک کر دے۔