مزید خبریں

جنتی کا استقبال

ارشاد باری تعالی ہے: ’’اے نفس مطمئنہ! لوٹ اپنے رب کی طرف اس حال میں کہ تو اپنے رب سے خوش اور تیرا رب تجھ سے خوش۔ پس داخل ہو جا میرے بندوں میں اور داخل ہو جا میری جنت میں‘‘۔ (الفجر: 27۔30)
ان آیات کے اندر جنتی کے استقبال کی منظر کشی کی گئی ہے۔ سب سے پہلے فرشتے خوش خبری سنائیں گے اور استقبال کریں گے پھر اللہ تعالیٰ براہِ راست خود استقبال فرمائے گا۔ اپنے مقرب بندوں میں شامل کرے گا اور جنت میں داخلے کا پروانہ عطا کرے گا گویا جنتی کا شاہانہ استقبال ہوگا۔ نہ صرف اللہ تعالیٰ خود استقبال فرمائے گا بلکہ فرشتے بھی استقبال کریں گے۔ لیکن اس منظر کشی کے لیے جو تعبیرات استعمال ہوئی ہیں وہ بڑی معنی خیز ہیں۔

سب سے پہلے تو ’’یٰاَ یَّتْھَا النَّفسْ المْطمَئنَّہْ‘‘ کے ذریعے سے خطاب ہی بڑا معنی خیز ہے۔ یہ نہیں فرمایا کہ ’’اے جنتی‘‘ بلکہ فرمایا: ’’اے نفس مطمئنہ‘‘ اس تعبیر کے اندر خود ایک پیغام ہے۔ یعنی جنتی وہ ہوگا جو ’’نفس مطمئنہ‘‘ کا حامل ہو۔ نفس کا اطلاق ذی شعور وجود پر ہوتا ہے۔ یہ زندگی کی علامت ہے۔ نفس ہی سے حرکت و گردش ہے اور چہل پہل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نفس کو چاہت و خواہش کا محل بنایا ہے جہاں تمنائیں اور آرزوئیں کروٹ لیتی ہیں اور پھر عملی تعبیریں اختیار کرتی ہیں۔ چاہت و خواہش جانوروں کی طرح بے لگام ہوتی ہے اسی لیے حد سے تجاوز کرتی رہتی ہے اور حلال و حرام کی پرواہ نہیں کرتی چنانچہ جو نفس چاہتوں اور خواہشوں کا غلام بن جائے اسے ’’نفس امارہ‘‘ کہتے ہیں۔ یعنی ایسا نفس جو برائی کا حکم دیتا ہے اور بگاڑ کی طرف لے جاتا ہے۔ نفس میں بذات خود کوئی خرابی نہیں بلکہ چاہتیں اور تمنائیں اسے خراب کرتی ہیں ورنہ نفس اگر اپنی اصلی فطرت پر ہو تو وہ برائی سے انکار کرتا ہے۔

برائی کو پسند نہیں کرتا بلکہ برائی پر لعنت ملامت کرتاہے تاکہ اس برائی سے بچا جائے اور اجتناب کیا جائے۔ چنانچہ انسان جب بھی کسی برائی کی طرف لپکتا ہے تو یہ نفس اسے کچوکے لگاتا ہے تاکہ وہ بازآجائے۔ نفس کی اس فطری خوبی کی وجہ سے اسے ’’نفس لوّامہ‘‘ یعنی بہت زیادہ لعنت ملامت کرنے والا نفس کہتے ہیں۔ دنیا اسے’’ضمیر‘‘ یا ’’ضمیر کی آواز‘‘ کا نام دیتی ہے۔ نفس کی اصل صفت اور اس کا بنیادی کام یہی ہے۔ جب انسان اس کی آواز پر کان نہیں دھرتا تو رفتہ رفتہ وہ ’’نفس امارہ‘‘ کا روپ دھار لیتا ہے۔ اور اگر انسان اس کی آواز پر کان دھرے تو وہ اس کا تحفظ کرتا ہے اور دھیرے دھیرے ’’نفس مطمئنہ‘‘ کی راہ پر ڈال دیتا ہے۔ لیکن ظاہر ہے اس کے لیے انسان کو اپنے نفس پر قابو کرنا پڑتا ہے۔ اپنی تمناؤں اور چاہتوں پر لگام لگانا پڑتا ہے۔ اپنی خواہشوں کو اللہ کے احکامات کے تابع بنانا پڑتا ہے۔ اللہ کی چاہت اور خوشی پر نفس کو مطمئن کرنا پڑتا ہے۔ اسی عمل کو ’’ضبط نفس‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ ’’ضبط نفس‘‘ اتنی بنیادی چیز ہے کہ اسی لیے روزہ فرض کیا گیا۔ چنانچہ جب انسان اپنے آپ کو اللہ کے احکامات کا تابع بنا لیتا ہے اور اپنی چاہت وخواہش کے بالمقابل اللہ کی چاہت و خوشی پر مطمئن ہو جاتا ہے تو وہ ’’نفس مطمئنہ‘‘ کا مقام پالیتا ہے اور جنت اس کا ٹھکانہ قرار پاتی ہے۔ چنانچہ ’’نفس مطمئنہ‘‘ کے ذریعے سے خطاب کرکے دراصل اس صفت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جس نے اسے جنت کا استحقاق بخشا اور آج بھی جو جنت کا طالب ہو گویا اسے اس صفت سے متصف ہونے کی کوشش کرنی چاہیے۔

’’ارجِعِی‘‘ کی تعبیر بھی بڑی معنی خیز ہے۔ ’’رجوع‘‘ کے معنی ہوتے ہیں ’’لوٹنا، پلٹنا‘‘ یعنی یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ تمہارا اصل مسکن تو تیرے رب کے پاس ہے۔ پہلے بھی تو وہیں تھا اور اب لوٹ کر بھی وہیں جا۔ گویا گھر واپسی یا وطن واپسی کا سا سماں ہوگا۔ دنیا تو سرائے تھی، تم اب اپنی اصل منزل پر لوٹ آئے ہو۔
’’رَاضِیَۃً مَّرضِیَّۃً‘‘ تم اس سے خوش وہ تم سے خوش‘‘ کی تعبیر اور زیادہ معنی خیز ہے۔ خوشی اپنے آپ میں بڑی اہم چیز ہے لیکن اس کا لطف اس وقت ملتا ہے جب کہ وہ دو طرفہ ہو۔ یک طرفہ خوشی میں لطف نہیں ہوتا ہے۔ اسے آپ اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ اگر باپ خوش ہو لیکن بیٹا خوش نہ ہو تو خوشی کا واقعی لطف نہیں ملتا، یا اسی طرح شوہر خوش ہو لیکن بیوی خوش نہ ہو تو بھی زندگی میں کوئی مزہ نہیں ہوتا۔ ٹھیک اسی طرح ہم اللہ سے خوش ہوں لیکن اللہ خوش نہ ہو تو پھر خوشی کی واقعی معنویت باقی نہیں رہ جاتی۔ اسی لیے بشارت دی گئی کہ جس طرح اللہ سے تم خوش ہو، راضی ہو، اسی طرح اللہ بھی تم سے خوش ہے اور راضی ہے تاکہ جنتی کی خوشی دوبالا ہو جائے اور اسے خوشی کا واقعی لطف حاصل ہو۔

اسی طرح ’’ فَادخْلِی فِی عِبَادِی‘‘ کی تعبیر نے تو اس کی معنویت کو اور دو چند کردیا ہے۔ آپ غور فرمائیں۔ کیا کوئی تنہا خوشی منا سکتا ہے ؟ اگر کوئی تنہا خوشی منانے کی کوشش بھی کرے تو کیا اسے واقعی خوشی کی لذت مل سکتی ہے؟ ہرگز نہیں! خوشی کی اصل لذت تو اسی وقت ملتی ہے جبکہ اقرباء و احباب اس میں شریک ہوں۔ ذرا بتائیں تنہا پردیس میں جو شخص عید مناتا ہے وہ زیادہ لطف اٹھاتا ہے یا جو وطن میں اپنوں کے درمیان عید مناتا ہے وہ زیادہ خوشی بٹورتا ہے۔ ٹھیک یہی حال جنت کی خوشی کا ہے۔ تنہا خوشی منانا مزہ کرکرا کردیتا ہے اسی لیے کہا جائے گا ’’فَادخْلِی فِی عِبَادِی‘‘ میرے مقرب بندوں میں داخل ہو جاؤ۔ اور ان کے ساتھ خوشی مناؤ۔

’’فَاد?خْلِی فِی عِبَادِی‘‘ میں ایک معنی اور پنہاں ہے۔ یہ نہیں کہا کہ لوگوں کے ساتھ خوشی مناؤ بلکہ یہ کہا کہ ’’میرے بندوں‘‘ ظاہر ہے کہ اللہ کا بندہ کون ہوسکتا ہے؟ جو اللہ کے مقرب ہیں جن پر اللہ نے انعامات کیے یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین۔ گویا جنتی کو ان کی معیت اور صحبت حاصل ہوگی۔ ان کی معیت اور صحبت خود بہت بڑا انعام ہے۔ بندوں کو لاکھ نعمتیں حاصل ہوں لیکن ساتھی اور پڑوسی اچھے نہ ہوں تو اسے سکون حاصل نہیں ہوتا۔ گویا پاکیزہ لوگوں کی صحبت اور معیت خود ایک بڑی نعمت ہے جو جنتی کو جنت میں حاصل ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کے اس خصوصی انعام کا تذکرہ خود یہ پیغام رکھتا ہے کہ دنیا میں انسانوں کو صحبت صالحین کی فکر کرنی چاہیے۔ کیونکہ یہ ایک عظیم نعمت سے کم نہیں۔

آخری تعبیر ہے’’وَ ادخْلِی جَنَّتِی‘‘ اس میں’’جنتی‘‘ ’’میری جنت‘‘ کی تعبیر پر غور کریں۔ ہماشما کی تیار کی ہوئی جنت نہیں بلکہ میری تیار کردہ جنت میں داخل ہو جاؤ۔ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ کی تیار کردہ جنت کس شان کی ہوگی؟ ہم اور آپ تصور بھی نہیں کرسکتے۔ ہمارے اور آپ کے تصورات کی جو بھی اڑان ممکن ہے وہ اس سے کہیں پرے ہوگی۔ کیا جنت کی یہ شان خود ہمیں دعوت نہیں دیتی کہ ہم اس کے حصول کے لیے مجاہدہ کریں…؟