مزید خبریں

شادی کی عمر

بعض اوقات لڑکیاں خود یہ رویہ اختیار کرتی ہیں کہ ابھی شادی کی جلدی ہی کیا ہے، بہت عمر پڑی ہے۔ پہلے تعلیم مکمل کی جائے، پھر ملازمت کی جائے اور جب کوئی مناسب رشتہ آئے تو اس پر بھی غور کرلیا جائے۔ ایسے ہی بعض والدین عاقبت نااندیشی اور بعض مادیت کے زیراثر یہ انتظار کرتے ہیں کہ کسی زیادہ مال دار فرد کی طرف سے رشتے کی پہل ہو تو اس پر غور کریں۔ ایک تیسرا زیادہ خطرناک تصور جو مغربی تہذیب اور ہندوازم کے ساتھ طویل عرصے کے تعامل (interaction) کے نتیجے میں بعض حضرات کے ذہنوں میں اُبھر آیا ہے وہ بجاے خود شادی اور خاندانی زندگی کی اہمیت کو محسوس نہ کرنا اور تجرد کی زندگی گزارنے میں کوئی حرج محسوس نہ کرنے کا ہے۔

جہاں تک قرآن و سنت کا تعلق ہے، قرآن کریم نے بہت واضح الفاظ میں حکم دیا ہے کہ: ’’تم میں سے جو لوگ مجرد ہوں، اور تمھارے لونڈی غلاموں میں سے جو صالح ہوں ان سے نکاح کردو۔ اگر وہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کردے گا، اللہ بڑی وسعت والا اور علیم ہے‘‘۔ (النور: 32)

اس آیت مبارکہ میں دو انتہائی اہم اصول تعلیم کیے گئے ہیں۔ اوّلاً یہ حکم کہ مجرد افراد مرد ہوں یا عورت، ان کا نکاح کردیا جائے، کیونکہ نکاح ایک ایسا حصار ہے جو نہ صرف ایک فرد کو بلکہ پورے معاشرے کو بُرائی سے محفوظ رکھنے کا سب سے زیادہ مؤثر ذریعہ ہے۔ پھر یہ بات فرمائی گئی کہ نہ صرف مجرد افراد بلکہ اگر لونڈی غلام بھی شادی کی عمر کے ہوں تو ان کا بھی نکاح کردیا جائے۔ اس سلسلے میں مال کی کمی اور وسائل کا نہ ہونا بنیاد نہ بنائی جائے۔ چنانچہ فرمایا: اگر وہ تنگ دست ہوں گے تو ہم انھیں غنی کردیں گے۔ قرآن کریم نے اپنے اس حکم کے ذریعے ان تمام معاشی دلائل کو رد کردیا ہے جن کی بنا پر لوگ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی کو مؤخر کرتے رہتے ہیں۔

رہا سوال شادی کی فرضیت کا تو اُوپر درج کی گئی آیت مبارکہ سے بڑھ کر فرضیت کا حکم اور کون سا ہوسکتا ہے۔ اسی پہلو کو خاتم النبیینؐ کی حدیث صحیح میں یوں فرمایا گیا کہ ’’نکاح میری سنت ہے‘‘ اور دوسری حدیث میں فرمایا گیا: ’’نکاح میری سنت ہے، اور جس نے نکاح پسند نہ کیا وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘۔ اس حدیث نے اصولی طور پر یہ بات طے کردی کہ اگر ایک شخص نکاح کا انکار کرتا ہے تو وہ اپنے آپ کو نبی کریمؐ کی اُمت سے اپنے عمل کی بنا پر خارج کرلیتا ہے۔ ہاں، ایک فرد مسلسل کوشش کر رہا ہو اور باوجود کوشش کے نکاح نہ کرپائے تو اس پر کوئی گرفت نہیں۔

یہاں یہ سمجھ لیجیے کہ قرآن ہو یا سنتِ رسولؐ دونوں کا نام شریعت ہے، ان میں فرق نہیں کیا جاسکتا۔ نکاح کے معاملے میں دونوں کے واضح احکام ہیں۔ اس لیے جان بوجھ کر اور محض مزید بہتر کا غیرمتعین انتظار کرنے کی بنا پر نکاح نہ کرنا شریعت کے منافی ہے۔ والدین کو بھی اور ان کی اولاد کو بھی اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور رسولؐ کی نافرمانی سے بچانے کے لیے جب شادی کی عمر ہوجائے تو تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ شادی ایک دینی فریضہ ہے اور اس کو بلاعذر شرعی مؤخر کرنا اللہ تعالیٰ اور رسولؐ کے احکام کی کھلی خلاف ورزی ہے۔