مزید خبریں

فلسطین کو پاکستانی ایٹمی اثاثوں کی ضرورت نہیں‘ صرف اسرائیلی جارحیت کوناکام بناناہوگا

 

کراچی (رپورٹ:حمادحسین)فلسطین کو پاکستانی ایٹمی اثاثوں کی ضرورت نہیں‘ صرف اسرائیلی جارحیت کاناکام بناناہوگا‘جب حکمرانوں کو اپنے امریکی، برطانوی ویزوںاور وہاںپرموجود اپنی جائداد کی فکر ہوتو ایٹمی اثاثے کس طرح فلسطین اور پاکستان کی اپنی مدد نہیں کرسکتے‘ہماراکمزور موقف قائد اعظم کے نظریات سے انحراف ہے‘فلسطین فنڈ قائم اور غزہ کامحاصرہ توڑنے کیلیے قافلے بھیجے جائیں۔فلسطین فائونڈیشن پاکستان کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر صابر ابو مریم، جامعہ کراچی کے شعبہ سیاسیات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد علی اور پاکستان مسلم لیگ کے رہنما ایڈووکیٹ امجد علی نے ان خیالات کا اظہار جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا پاکستان کے ایٹمی اثاثے مسجد اقصیٰ کا تحفظ کرسکیں گے؟‘‘ صابر ابو مریم کا کہنا تھا کہ پاکستان کا فلسطین کاز کے ساتھ رشتہ تاریخی ہے۔ 1917ء میں بالفور اعلامیہ نشر ہوا تو اس وقت سے برصغیر میں مسلمانوں کی جانب سے فلسطین کاز کے لیے سرگرمیاں شروع کی گئی تھیں۔ قائد اعظم کا مفتی اعظم فلسطین مفتی امین حسینی کے ساتھ مضبوط تعلق تھا اور دونوں کے درمیان خط و کتابت ہوتی تھی۔ برصغیر میں پہلی مرتبہ فلسطین ڈے بھی قائد اعظم کی اپیل پر منایا گیا اور فلسطینیوں کی مالی مدد کی گئی۔ اسی طرح آل انڈیا مسلم لیگ کے ہر اجلاس میں مسئلہ فلسطین سرفہرست رہا۔ 1940ء میں قرارداد پاکستان کے ساتھ قرارداد فلسطین بھی پیش کی گئی۔ اس سے قبل علامہ اقبال فلسطین تشریف لے گئے اور فلسطین کانفرنس میں شرکت کے بعد واپس پہنچ کر تاریخی گفتگو1936ء میں کی اور کہا کہ اگر فلسطینیوں کے حقوق کے دفاع کے جرم میں انگریز حکومت مجھے جیل بھی بھیج دے تو مجھے منظور ہے لیکن فلسطین کاز کی حمایت سے دستبردار نہیں ہو سکتے۔ قیام پاکستان کے بعد مفتی اعظم فلسطین مفتی امین حسینی پاکستان تشریف لائے اور قائد اعظم سے ملاقات کی‘ قیام پاکستان کے بعد سے ہمیشہ پاکستان نے قائداعظم کی بنیادی پالیسی کے مطابق ہی فلسطین کاز کی حمایت کی ہے۔ پی ایل او کو پاکستان میں پہلی مرتبہ فلسطینیوں کی نمائندہ جماعت تسلیم کیا گیا۔ یاسر عرفات پاکستان آئے اور اسی طرح بعد میں جب 2006ء میں حماس نے غزہ میں انتخابات جیت کر حکومت بنالی تو پاکستان میں حماس کے وزیر خارجہ محمود الزھار کا شاندار استقبال بھی کیا گیا اور مالی مدد بھی کی گئی۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ پاکستان کے عوام کا فلسطینیوں کے ساتھ ایک تاریخی، اسلامی اور برادری کا رشتہ ہے۔ جیسا کہ ماضی کی حکومتوں نے فلسطین کاز کی حمایت کی اور اب گزشتہ کئی سال سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان کی حکومتوں کا کمزور موقف رہا ہے جو کہ دراصل قائد اعظم محمد علی جناح کے نظریات سے انحراف ہے۔ آج فلسطینی عوام چاہتے ہیں کہ فلسطین واپس آئیں۔ لاکھوں فلسطینی جبری جلا وطن ہیں۔ ہماری حکومت اس موضوع پر بات نہیں کرتی۔ یہ موجودہ حکومت کی بات نہیں بلکہ ماضی کی چند ایک حکومتوں سے متعلق ہے۔ موجودہ بھی اس میں شامل ہے۔ اسی طرح فلسطینی عوام کبھی نہیں چاہتے کہ2 ریاستی حل ہو خاص طور پر موجودہ حالات میں جبکہ غاصب صہیونی ریاست پورا فلسطین ہڑپ کرنا چاہتی ہے لہٰذا ہماری حکومتوں کی جانب سے 2 ریاستی حل کی بات کرنا مضحکہ خیز ہے۔ مسئلہ فلسطین کی اصل بنیاد سے بے خبر حکومتوں سے ایسی ہی توقع کی جا سکتی ہے۔ جیسا کہ غزہ پر صہیونی حالیہ جارحیت کے آغاز میں ہمارے نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کا کمزور موقف سامنے آیا تھا اور پھر بعد میں تنقید کے بعد انہیں یہ کہنا پڑا کہ کہ اسرائیل ایک غاصب اور ناجائز ریاست ہے۔ حالانکہ قائد اعظم محمد علی جناح یہ بات کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کبھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا لیکن موجودہ حکومت کہتی ہے کہ فلسطین کی آزادی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے‘ اس بات کا کیا مطلب ہے؟ کیا ہم احمقوں کی دنیا میں رہتے ہیں؟ جب حکومت کا موقف اس قدر کمزور ہو اور حکمرانوں کو اپنے امریکی و برطانوی پاسپورٹ اور ویزوں کی فکر ہو تو ایسے حالات میں ایٹمی اثاثے کس طرح فلسطین اور پاکستان کی اپنی مدد نہیں کرسکتے‘ جہاں حکمران ذاتی مفاد کو اجتماعی مفاد پر ترجیح دیں تو وہاں کوئی اسلحہ اور ایٹمی اثاثہ کسی باہر والے کو تو کیا گھر والوں کو بھی فائدہ نہیں دے گا۔ آخر میں افواج پاکستان ہیں جو نہ صرف پاکستان کی امید ہے بلکہ مسلم اُمّہ اور فلسطینی عوام بھی ان کی طرف دیکھتے ہیں۔ مسلم اُمّہ میں یہی ایک مضبوط اور طاقتور فوج باقی ہے‘ باقی سب کو تو امریکا اور اسرائیل نے سازشوں کے ذریعے کمزور کر دیا ہے اور افواج پاکستان کے خلاف بھی یہی سازش جاری ہے۔ فلسطینیوں کو ہمارے ایٹمی اثاثوں کی ضرورت نہیں ہے‘ نہ ہی یہاں سے فوج کی ضرورت ہے‘ وہ اپنی جنگ ایک سو سال سے لڑتے آ رہے ہیں۔ آج وقت کی اہم ترین ضرورت فلسطینی عوام اور مزاحمت کا دفاع ہے۔ امریکا و اسرائیل سمیت مغربی حکومتیں جو کچھ فلسطینی مزاحمت کے خلاف کر رہی ہیں اس کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ کام حکومت پاکستان اور افواج پاکستان کر لیں تو یقین کیجیے یہ ایٹمی اثاثوں سے بڑی مدد ہوگی جو فلسطینی عوام اور فلسطینی مزاحمت چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد علی کا کہنا تھا کہ موجودہ صدی میں مسئلہ فلسطین عالمی سیاست اور انسانیت کا ایک ایسا موضوع اور گمبھیر مسئلہ ہے جو عالم امن کے منہ پر ایک طمانچہ ہے‘ مسئلہ فلسطین نے بددیانتی، سازشوں، جوڑ توڑ اور طاقت کی کوکھ سے جنم لیا ہے‘ یہ حل بھی طاقت سے ہی ہوگا‘ مسئلہ فلسطین کا اپنا ایک مذہبی پہلو بھی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ علاقائی، جغرافیائی، سیاسی، معاشی، نسلی اور سماجی پہلو بھی رکھتاہے‘ یہ نہ صرف انسانی حقوق کا ایک اہم مسئلہ ہے بلکہ سماجی انصاف اور شخصی آزادی کا بھی معاملہ ہے‘ امن، آزادی اور مساوات کے علمبرداروں تک ان حقائق کو اجاگر کرنے اور ان کو احساس دلانے کی اشد ضرورت ہے‘ یہ ہماری کمزوری اور نا اہلی ہے کہ ہم نے بحیثیت امت مسلمہ کبھی بھی متحد ہوکر مسئلہ فلسطین کے لیے ایک آواز بلند نہیں کی‘ نہ ہی او آئی سی نے امت کا نمائندہ بن کر اسے عالمی سطح پر اجاگر کرنے اور عالمی اداروں جیسے اقوام متحدہ، یورپی یونین اور دیگر عالمی فورم پر اسے اٹھانے کی کوشش کی‘ کئی مسلم ممالک پاکستان، ایران اور ترکی نے اس سلسلے میں انفرادی طور پر بعض موثر اقدامات بھی کیے ہیں‘ ان ہی کی بدولت آج فلسطین مزاحمت جاری رکھنے کے قابل ہوا ہے‘ اسی طرح فلسطینی عوام کی بحالی کے لیے تعاون اور اقدامات کے سلسلے میں بھی خاطر خواہ انتظامات کیے گئے ہیں اور دام درہم قدم سخن‘ ان کی دل جوئی اور مدد کی۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ بہت جلد مسئلہ فلسطین، اس کے عوام کی امنگوں کے مطابق حل ہو ،تاکہ دنیا میں’’ جیو اور جینے دو‘‘ کے اصول کے تحت امن قائم رہ سکے‘ مسئلہ فلسطین کی حمایت کے لیے ضروری ہے کہ مسلم حکومتیں زبانی جمع خرچ سے آگے بڑھیں ‘پاکستان فلسطین فنڈ قائم کرے اور غزہ کا محاصرہ توڑنے کے لیے امدادی قافلہ روانہ کرے۔ امجد علی کا کہنا تھا کہ مسجد اقصیٰ قبلہ اوّل ہے اس کا تحفظ ہر مسلمان پر فرض ہے‘ جب 28 مئی 1998ء کو اس وقت پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نیبھارت کے 5 ایٹمی دھماکوں کے جواب میں 6 ایٹمی دھماکے کیے اور مسلم امہ خصوصاً کشمیر، فلسطین اور دیگر مسلم ممالک کا سر فخر سے بلند کیا اور مسلمانوں نے شکرانے کے نفل ادا کیے تھے کہ مسلمان بھی ایٹمی قوت بن چکے ہیں اور اب جب فلسطین کے مسلمانوں پر جنگ مسلط کردی گئی ہے اور مسجد اقصیٰ کی حرمت مشکل میں ہے تو آج ہمارے وزیراعظم کو صلاح الدین ایوبی کا کردار ادا کرتے ہوئے اسرائیل کو للکارنا چاہیے اور انٹرنیشنل فورم پر دنیا کو یہ باور کرانا چاہیے کہ مسلمان بھی ایک ایٹمی قوت رکھتے ہیں، اگر اسرائیل اپنے غلط ارادوں سے باز نہ آیا اور مسجد اقصیٰ کا قبضہ ختم نہ کیا تو مجبوراً پاکستان کو اپنی فوجیں ایٹمی اثاثوں سمیت مسجد اقصیٰ کی حفاظت کے لیے بھیجنی پڑیں گی اور پھر ایسا نہ ہو کہ صلیبی جنگوں کا آغاز ہوجائے کیونکہ مسلمان اپنے قبلہ اوّل کی حفاظت کے لیے کسی چیز سے دریغ نہیں کریں گے۔ یہ ایٹمی اثاثے ہم نے سجانے کے لیے نہیں رکھے ہوئے بلکہ مسلمانوں کی حفاظت کے لیے ہیں اور ہم مسلمانوں کی حفاظت کریں گے، تمام مسلم اُمہ کو چاہیے کہ متحد ہوجائیں۔