مزید خبریں

کامیابی کی چار منزلیں

تمہارے سامنے کوئی مقصد ہے جس کو تم نے حاصل کرنا چاہتے ہو اور اس کے حصول کے لیے تم بے قرار ہو۔ اس کی محرومی سے تم تلخ ہو۔ تمہارا ایک مطلب ہے جس کے حاصل کرنے کی تم جستجوکر رہے ہو۔ کوئی مراد ہے جس کے تم متلاشی ہو، کوئی مقصود ہے جس کی طلب سے تم تشنہ کام ہو۔ اس کی طلب و تلاش میں تم سرگرداں ہو۔ وہ اگر حاصل ہو جائے تو تم کامیاب و کامران ہو۔ اس کا حصول تمہاری جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ وہ ثمرہ ہے جس کا پا لینا تمہاری فلاح و کامیابی ہے۔ اس کی طلب و تلاش میں تم سرگرداں ہو۔ اس کا ملنا تمہارے دل کی تمنا و آرزو ہے۔ اسی کے ملنے میں تمہاری سرخروئی وسرفرازی ہے۔ وہی تمہارا امتنہاء عروج ہے۔ فرض کرو اگر وہ نہ حاصل ہو تو تم خائب وخاسر ہو اور اس کے عدم حصول پر تم ماتم کناں و گریہ کناں ہو۔ اس کا نہ ملنا ہی تمہاری ناکامی ہے۔ اس کونہ پانے سے تم ذلت و انحطاط کے گڑھے میں پہنچ جاتے ہو۔ یہی تمہاری رسوائی و اہانت ہے۔ اس سے بڑھ کر نہ تمہاری کوئی بے عزتی ہوسکتی ہے اور نہ نامرادی وخسران۔ تو کیا ایسا مقصد اعلیٰ بغیر کسی شرط و قید کے حاصل ہوسکتا ہے۔ کیا ایسے اہم مقصد کے لیے کچھ کرنا نہ ہوگا۔ پس قرآن کہتا ہے، قومی و اجتماعی مقاصد علیا کے لیے بھی شرائط و قیود ہیں۔ جب تک وہ شرائط نہ پوری کی جائیں، جماعتیں محروم و نامراد رہتی ہیں اور یہی ان کا خسران و محرومی ہے اور یہی ان کی رسوائی و ذلت ہے۔ والعصر۔ ان الا انسان لفی خسر۔ الا الذین امنوا وعملو الصلحت وتواصوا بالحق وتواصوا بالصبر۔ ( سورہ نمبر 103)

گردش زمانہ شاہد ہے کہ ہر جماعت خسارے میں گھری ہوئی ہے۔ مگر وہی جو یہ چار کام انجام دیں۔ ایمان لائیں اور عمل صالح کریں، حق و صداقت کا اعلان کرتے رہیں اور صبر کی تلقین کریں۔

زمانہ اس لیے شاہد ہے کہ اس آسمان کے نیچے قوموں اور جماعتوں کی بربادی و کامیابی اور ارتقاء انحطاط کی کہانی پرانی ہے اتنا ہی پرانا زمانہ بھی ہے۔ دنیا میں اگر کوئی اس انقلاب اقوام کا ہم عصر ہوسکتا ہے تو وہ صرف زمانہ ہے۔ پھر قوموں کی تباہی وبربادی اور کامیابی و فلاح جو کچھ بھی بھی ہوتا رہا ہے۔ وہ زمانے کی گود میں ہوا۔ پس انقلاب امم پر اگر کوئی چیز گواہ ہوسکتی ہے تھی تو وہ صرف گردش ایام ہی تھا۔ اس لیے قرآن نے زمانے کو اس پر شاہد اور گواہ بنایا کہ زمانہ اور اس کی گردش ایام ہی تھا۔ اس لیے قرآن نے زمانے کو اس پر شاہد اور گواہ بنایا کہ زمانہ اور اس کی گردش ورفتار اس بات پر شاہد ہے کہ کوئی اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک ان اصولوں چہار گانہ کو نہ اپنا لے۔ ہر جماعت خسارے میں رہے گی وہ اگر ان چار دفعات پر عمل پیرانہ ہو۔ پس قرآن اعلان کرتا ہے کہ اس آسمان کے نیچے نوع انسان کے لیے انسانوں کی تلاشوں اور جستجوؤں کے لیے اور امیدوں و تمناؤں کے لیے بڑی بڑی ناکامیاں ہیں گھاٹے اور ٹوٹے ہیں، خسران اور نامرادی ہے، محرومی اور بے مرادی ہے۔ لیکن دنیا کی اس عام نامرادی سے کون انسان ہے، کون جماعت ہے جو کہ بچ سکتی ہے اور ناکامیابی کی جگہ کامیابی اور ناامیدی کی جگہ امید اس کے دل میں اپنا آشیانہ بنا سکتی ہے۔ وہ کون انسان ہیں، وہ انسان جو کہ دنیا میں ان چار شرطوں کو قولاً و عملاً اپنے اندر پیدا کر لیں۔ جب تک یہ پیدا نہ ہوں گی، اس وقت تک دنیا میں نہ کوئی قوم کامیاب ہوسکتی اور نہ ملک۔ حتی کہ ہوا میں اڑنے والے پرندے بھی کامیابی نہیں پا سکتے۔ ان چار شرطوں کے نام سے گھبرا نہ جانا۔ پہلی شرط وہ ہے جس کا نام قرآن کی بولی میں ایمان ہے۔ الا الذین امنو۔ تم جبھی کامیابی پا سکتے ہو جب تمہارے دلوں کے اندر اور روح و فکر میں وہ چیز پیدا ہو جائے جس کا نام قرآن کی زبان میں ایمان ہے۔ ایمان کے معنی عربی زبان میں زوال شک کے ہیں یعنی کامل درجے کا بھروسہ اور کامل درجے کا اقرار تمہارے دل میں پیدا ہو جائے۔ جب تک کامل درجے کا یقین تمہارے دلوں کے اندر پیدا نہ ہو اور اللہ کی صداقت وسچائی اور اللہ کے قوانین و اصولوں پر کامل یقین تمہارے قلوب میں موجزن نہ ہو جائے تب تک کامیابی کا کوئی دروازہ تمہارے لیے نہیں کھل سکتا۔ شک کا اگر ایک کانٹا بھی تمہارے دل کے اندر چبھ رہا ہے تو تم کو اپنے اوپر موت کا فیصلہ صادر کرنا چاہیے۔ تم کو کامیابی نہیں ہوسکتی۔ اس لیے سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ تمہارے قلوب میں ایمان ہو، اطمینان ہو، یقین ہو، جماؤ ہو اور تمکن و اقرار پیدا ہو۔ دل کا یہ کام، دماغ کا یہ فعل۔ تصور کا یہ نقشہ کامیابی کی پہلی منزل ہے۔ اگر اسی میں تمہارا قدم ڈگمگا رہا ہے تو کامیابی کی بو بھی تم نہیں سونگھ سکتے۔ کیا تم شک کا روگ اپنے پہلو میں لے کر دنیا کی چھوٹی سے چھوٹی کامیابی بھی پا سکتے ہو۔ کیا تم دنیا میں ایک مٹھی بھر جو اور چاول پا سکتے جب تک تمہارے لیے دلوں میں اس کے لیے یقین و اعتماد اور بھروسہ و اطمینان نہ ہو۔ دنیا میں کوئی مقصد بغیر اعتماد وبھروسے کے حاصل ہوسکتا ہے کیا چیونٹی سے لے کر ہاتھی کے کوہ پیکر وجود تک کوئی طاقت اپنا مقصد اور اس کے لیے جدوجہد کی سرگرمی بغیر عزم و ارادے کے دکھا سکتی ہے۔ کیا عزم و ارادہ بغیر یقین و اطمینان کے پیدا ہوسکتا ہے۔ اگر نہیں، تو قرآن تم سے یہی مطالبہ کرتا ہے کہ اپنے اندر یقین و اعتماد پیدا کرو تا کہ تمہارے لیے عزم و ارادہ پیدا ہو اور پھر تم سرگرم عمل ہو کر جدوجہد کرو۔ لیکن کیا حصول مقصد کے لیے دل کا یہ یقین اور دماغ کا یہ فعل کافی ہے اور منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے اور کچھ نہیں کرنا۔ کیا اسی سے کامیابی حاصل ہو جائے گی۔ فرمایا نہیں۔ بلکہ ایک دوسری منزل اس کے بعد آتی ہے جب تک وہ دوسری منزل بھی کامیابی کے ساتھ طے نہ کرلو گے تو صرف پہلی منزل کو طے کر کے کامیابی نہیں پا سکتے۔ اس کا نام قرآن کی زبان میں عمل صالح ہے۔ وعملوالصلحت۔ یعنی وہ کام جو اچھائی کے ساتھ کیا جائے۔ جس کام کو جس صحت اور جس طریقے کے ساتھ کرنا چاہیے اور جو طریقہ اس کے لیے سچا طریقہ ہوسکتا ہے، اس کام کو اسی کے ساتھ انجام دیا جائے۔ اس سے سادہ تر الفاظ میں یہ کہ جو طریقہ اس کام کے انجام دینے کا صحیح طریقہ ہوسکتا ہے، اسے اسی طریقے کے ساتھ انجام دیا جائے۔ قرآن کا یہ اصول تو عام ہے کہ کیوں کہ ایمان کے معنی ہیں وہ کامل یقین وکامل اطمینان اور اقرار جو عمل سے پہلے پیدا ہوتا ہے۔

فرض کرو کہ تمہارے سامنے ایک مکان ہے، جس وقت یہ ایک چٹیل میدان تھا۔ کوئی وجود اس عمارت و مکان نہ تھا۔ کسی کاریگر نے اس وقت یہاں کوئی تعمیر نہ کی تھی۔ نہ دیواریں تھیں اور نہ چھت وغیرہ کچھ بھی نہ تھا تو اس وقت بھی یہ مکان مع اپنی لائنوں اور نقوش مزینہ کے موجود تھا۔ کہاں؟ کاریگر اور مالک کے دماغ میں پیدا ہوا تھا۔ پس وہ چیز جو اس کے دماغ میں موجود تھی۔ وہ ارادہ جو اس کے دماغ میں پیدا ہوا تھا، وہ پہلی منزل ہوئی جو مذہب میں آ کر ایمان کا نام اختیار کر لیتی ہے۔ بالکل جیسے وہ عمل دماغ ہے ویسے ہی تصور ویقین بھی عمل قلب ہے اور اسی کو قرآن ایمان کہتا ہے۔ اسی بنا پر سب سے پہلی منزل ایمان کی ہوئی۔ پس تجویز یہ ہے کہ پہلے تمہارے دل کے اندر سچا اطمینان و یقین اور صحیح ارادہ عزم پیدا ہو پھر صرف دماغ کی منزل طے کر کے قدم نہ ٹھہر جائیں بلکہ ایک دوسری منزل وعملوا الصالحات کی بھی ہے یعنی عمل صالح کی منزل۔ تو جو طریقہ اس کو انجام دینے کا ہو اسی طریقے سے انجام دو گے تو مکان کی تعمیر پایۂ تکمیل کو پہنچ جائے گی۔ ورنہ نہیں۔ ایسے ہی یہاں بھی جس مقصد کو تم حاصل کرنا چاہتے ہو اس کے حاصل کرنے کے لیے جو عمل وسعی بھی کرو۔ وہ اسی طریقے سے کرو، جو طریقہ اس کے کرنے کا ہے۔ اس کو بھی جب پورا کر لیا تو اس کے یہ معنی ہوئے کہ فتح مندی اور کامیابی کی دو منزلیں تم نے طے کر لیں۔ مگر پھر کیا تمہارا کام ختم ہوگیا۔ اس کے بعد کیا تم منزل مقصود تک پہنچ جاؤ گے۔ قرآن کی عالمگیر صداقت کہتی ہے کہ نہیں بلکہ ان دو منزلوں کے بعد دو منزلیں اور باقی نہیں۔ اپنی ہمت تو آزما لو کہ ان کے لیے تمہارے تلوے تیار ہیں یا نہیں۔ تمہاری کمر ہمت مضبوط ہے کہ نہیں۔ ممکن ہے کہ یہ دو منزلیں تمہارے لیے سود مند نہ ہوں جو صرف ایک زنجیر کی کڑی کے ظاہر و باطن کی درستگی ہے۔ لیکن کیا ایک کڑی کے درست ہو جانے سے پوری زنجیر کا کام پورا ہو جایا کرتا ہے۔ اگر نہیں تو تم اپنی جگہ ایک کڑی ہو۔ تمہارا وجود قومی زنجیر کی ایک کڑی ہے۔ پس زنجیر کا کام ابھی باقی ہے اور تم گویا ہوا میں بکھری ہوئی شکل میں بے کار ہو۔ اس میں تمہارا کوئی وجود نہیں کیوں کہ قرآن وجود مانتا ہے، اجتماع کا نہ کہ کڑیوں کا۔ اس کے نزدیک وجود کڑیوں کا نہیں ہے بلکہ زنجیر کا ہے۔ تم میں ہر وجود ایک کڑی ہے۔ اس کا کام پورا نہیں ہوسکتا۔ جب تک وہ باقی کڑیوں کی خبر نہ لے۔ جب تک باقی کڑیاں مضبوط نہ ہوں گی زنجیر نہیں ہوسکتی۔ اس لیے فرمایا کامیابی کا سفر اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتا، جب تک تیسری منزل تمہارے سامنے نہ آئے۔ وہ تیسری منزل ہے توحید حق کی۔ وتواصوابالحق۔ یعنی ان منزلوں سے کامیابی کے ساتھ گزرنے کے بعد تیسری منزل کو بھی کامیابی سے طے کرو یعنی دنیا میں خدا کی سچائی کا پیغام پہنچاؤ۔ جب تک تم میں یہ بات نہ ہو کہ تمہارا دل سچائی کے اعلان کے لیے تڑپنے لگے، تب تک تم کو کامیابی نہیں مل سکتی۔ اب اگر تیسری منزل کے لیے تیار ہو گئے۔ اگر توفیق الٰہی نے تمہاری دستگیری کی ہے اور تم نے یہ منزل بھی کامیابی کے ساتھ طے کر لی ہے تو کیا پھر مقصود حاصل ہو جائے گا اور کچھ نہ کرنا پڑے گا۔ قرآن کہتا ہے، نہیں۔ بلکہ ایک اور آخری منزل بھی ہے جو کہ اعلان صبر کی منزل ہے۔ واتواصوبالصبر۔ اعلان صبر کی منزل اعلان حق کی منزل کے ساتھ لازم و ملزوم کا رشتہ رکھتی ہے۔ اس کے ساتھ اس کی گردن اس طرح جڑی ہوئی ہے کہ جدا نہیں کی جا سکتی۔ فرمایا کہ حق کا وہ اعلان کریں گے۔ حق کا پیغام پہنچائیں گے۔ حق کا پیغام سنائیں گے۔ حق کی دعوت دیں گے۔ حق کی تبلیغ کریں گے۔ حق کا چیلنج کریں گے۔ حق کا پراپیگنڈا کریں گے۔ لیکن حق کا یہ حال ہے کہ حق کی راہ میں کوئی قدم نہیں اٹھ سکتا، جب تک قربانیوں کے لیے نہ اٹھے۔ حق کا پیغام پہنچانا بغیر قربانی و ایثار کے ایسا ہی ہے جیسا کہ آگ کو ہاتھ میں پکڑ لینا، بغیر اس کی گرمی کے۔ جیسے یہ ناممکن ہے، ویسے ہی وہ بھی محال ہے اس لیے چوتھی منزل صبر کی ہے۔ جب تک یہ منزل بھی طے نہ کی جائے کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی۔