مزید خبریں

ایسا اختیار نہیں چاہتا جس سے ملک کا نقصان ہو ، چیف جسٹس

اسلام آباد(آن لائن +مانیٹرنگ ڈیسک) چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے تشکیل کردہ فل کورٹ بینچ نے عدالت عظمیٰ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023ء کیخلاف اپیلوں کی سماعت اٹارنی جنرل پاکستان کی بیرون ملک مصروفیات کے باعث 3اکتوبرتک کے لیے ملتوی کردی ہے اور حکم امتناع برقرار رکھتے ہوئے فریقین سے25ستمبرتک اضافی دلائل بھی تحریری طورپر مانگ لیے۔ ایکٹ کے خلاف دائر 9 درخواستوں پر ملکی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ کی کارروائی براہ راست نشر کی گئی، عدالت نے کہاہے جوبھی ضروری ہواحکم نامہ جاری کریں گے،دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایسا اختیار نہیں چاہتا جس سے ملک کو نقصان ہو،دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایسا اختیار نہیں چاہتا جس سے ملک کو نقصان ہو، ازخود نوٹس کے اختیارات چھوڑنے کو تیارہوں، ہرچیز پرازخودنوٹس لیتے ہیں،پارلیمنٹ نے حقوق پر وارکیاہوتاتونوٹس لیتے،پتانہیں خواجہ صاحب کو کیامسئلہ ہوا کہ انہوں نے درخواست ڈال دی،کیا آپ چیف جسٹس کو احتساب سے بالابناناچاہتے ہیں،مان لیں،ہم سے بھی غلطیاں ہوتی ہیں،بھٹو کیس میں غلطی ہوئی،ہم نے فوجی قبضے کو بھی جواز دیا، ریکوڈک کیس میں عدالتی فیصلے سے 6.5ارب ڈالر کا نقصان ہوا، ایسا اختیاردینا بھی چاہیں تب بھی نہیں لوں گا۔دوران سماعت اٹارنی جنرل پاکستان نے کہا کہ عدالت عظمیٰ ایکٹ جمہوری عمل کا تسلسل ہے، دوران سماعت جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ اگر پارلیمنٹ نے چیف جسٹس کی بادشاہت ختم کی تواس میں غلط کیا ہے؟اس طرح کی اصلاحات آئی چاہئیں تھیں۔ ادھر چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس کا پروٹوکول اور گاڑی لینے سے انکار کردیا۔چیف جسٹس 1800 سی سی عام گاڑی میں عدالت عظمیٰ پہنچے، ان کے لیے گھر سے عدالت عظمیٰ آتے ہوئے روٹ بھی نہیں لگایا گیا اور ساتھی ججز والی عام سیکورٹی ہی دی گئی۔چیف جسٹس کے چیمبر کے باہر لگی تختی پر چیف جسٹس پاکستان کے بجائے صرف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ لکھ دیا گیا۔ پہلی بار ایسا ہوا ہے اور اس سے قبل ایسی روایت نہیں ملتی جبکہ وفاقی حکومت نے ریویو آف ججمنٹ ایکٹ کے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کیخلاف نظر ثانی اپیل دائر کردی ۔۔تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے تشکیل کردہ فل کورٹ بینچ نے عدالت عظمیٰ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023ء کیخلاف اپیلوں پر سماعت شروع ہوئی تو درخواست گزار کے وکیل خواجہ طارق رحیم نے اپنے دلائل میں کہا کہ یہ میرے لیے قابل فخر ہے کہ فل کورٹ کے سامنے پیش ہو رہا ہوں، امید ہے بار اور بینچ مل کر کام کریں گے۔ چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ خواجہ طارق رحیم اپنے دلائل مختصر اور جامع رکھیے گا کیونکہ بینچ میں کچھ ججز ایسے ہیں جو پہلی مرتبہ کیس سن رہے ہیں۔ خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ میں فل کورٹ کی مکمل حمایت کرتا ہوں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ماضی کو بھول جائیں آج کی بات کریں۔ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے سیکشن 5 میں اپیل کا حق دیا گیا ہے اس پر کیا کہیں گے، اگر ہم نے فل کورٹ پر کیس کا فیصلہ کرلیا اور قانون درست قرار دے دیا تو اپیل کا حق کہاں جائے گا۔ چیف جسٹس قاضی فائز نے بتایا کہ عدالت عظمیٰ نے پاکستان بارکونسل کی فل کورٹ کی درخواست منظورکرلی ہے اور ہم نے بارکونسل کی درخواست پر فل کورٹ بنا دیا ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کیا اس کیس میں 9 درخواستیں ہیں، اور اس کیس میں دلائل کون کون دے گا، کوشش کریں کہ دلائل کو محدودرکھیں، ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ ماضی کو دفن کردیں، کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے معاملہ سنا ہی نہیں۔وکیل درخواست گزار خواجہ طارق رحیم کے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ ہم عدالت کے ساتھ ہیں۔ جس پر جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ خواجہ صاحب اپ کونسی درخواست میں وکیل ہیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے خواجہ طارق سے استفسار کیا کہ اس قانون میں اپیل کا حق دیا گیا اس پر آپ کیا دلائل دیں گے۔ جس پر وکیل خواجہ طارق نے کہا کہ مجھے اتنا علم ہے کہ مجھے اپیل کا حق نہیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ اس میں پھر دیگر رولز ہیں ان کا کیا ہوگا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ریمارکس دیے کہ خواجہ صاحب آپ کوسننا چاہتے ہیں لیکن درخواست پرفوکس رکھیں، ہمارا مقصد یہ نہیں کہ آپ ماضی پربات نہ کریں لیکن آپ فوکس رہیں، پارلیمنٹ قادر مطلق ہے کا لفظ قانون میں کہیں نہیں لکھا آپ فوکس رکھیں۔وکیل خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ میں بھی فل کورٹ کی حمایت کرتا ہوں۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ماضی کو بھول جائے، آج کی بات کریں، سوال تھا کیا انہوں نے پہلے کیس سنا وہ بینچ کا حصہ ہوں گے یا نہیں، پھر سوال تھا کے کیا سینئر ججز ہی بینچ کاحصہ ہوں گے، پھر سوال تھا کے، ہمیں مناسب یہی لگا کے فل کورٹ بنایا جائے۔وکیل خواجہ طارق رحیم نے مؤقف پیش کیا کہ عدالت عظمیٰ نے فل کورٹ کے ذریعے اپنے رولزبنارکھے تھے، لیکن پارلیمنٹ نے عدالت عظمیٰ کے رولز میں مداخلت کی۔ پارلیمنٹ کے پاس قانون سازی کااختیار آئین سے مشروط ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر کا اختیار عدالت عظمیٰ کو دیا گیا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خواجہ صاحب آپ باربار ’’میں‘‘ کا لفظ کیوں استعمال کر رہے، آپ درخواست گزار ہیں اور دیگر لوگ بھی اس کیس میں فریق ہیں، کیا آپ کا اس کیس میں کوئی ذاتی مفاد ہے، خواجہ صاحب اس کیس میں عدلیہ سے جڑا کون سا عوامی مفاد ہے۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے سوال اٹھایا کہ بنچ کی تشکیل سے متعلق کمیٹی بنانے کا قانون کیا جوڈیشل پاور دے رہا ہے یا انتظامی، کیا پارلیمان عدالتی انتظامی اختیارات سے متعلق قانون بناسکتی ہے، کیا پارلیمان نئے اختیارات دیکر عدالت عظمیٰ کی جوڈیشل پاور کو پس پشت ڈال سکتی ہے۔جسٹس اطہرمن اللہ نے وکیل خواجہ طارق سے استفسار کیا کہ خواجہ صاحب کیا آپ کوقبول ہے کہ ایک بندہ بینچ بنائے، پارلیمان نے اسی چیز کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ یہ درخواست عوامی مفاد میں لائی گئی ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ یہ سوال نوٹ کرلیں، عدالت عظمیٰ کا اپنا اختیارہے کہ وہ اپنے اختیارات کواستعمال کرے، کیا آپ کے مطابق عدالت عظمیٰ رولز1980 آئین سے متصادم ہیں، مستقبل کی بات نہ کریں دلائل کو حال تک محدود رکھیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر 17جج بیٹھ کر یہی قانون بنا دیں توٹھیک ہے پارلیمنٹ نے بنایا تو غلط ہے، آپ کا پورا کیس یہی ہے نہ یہی ساری بحث آپ کر رہے ہیں۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ عدلیہ کی آزادی بنیادی انسانی حقوق میں سے ہے، عدالت اپنے رولز خود بنا سکتی ہے، پارلیمنٹ کی تضحیک نہیں کر رہا، کیا پارلیمنٹ اپنا قانون سازی کا اختیاراستعمال کرتے ہوئے عدلیہ میں مداخلت کرسکتی ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 199 کے اندراپیل کا حق دیا گیا تھا توکیا وہ غلط تھا، ایک فوجی آمر کے دور میں عدالت عظمیٰ رولز بنے کیا وہ ٹھیک تھے، اگر یہ قانون سازی غلط ہے تو وہ بھی غلط تھا۔چیف جسٹس نے وکیل خواجہ طارق سے کہاکہ آپ کو ہر چیز کا آئینی جواب دینا ہوگا، اب تک ایک بات بھی نہیں کہی کہ کیس طرح یہ قانون آئین سے متصادم ہے، ہمارے حقوق پر پارلیمنٹ نے زبردست وار نہیں کیا، آپ ڈیفنڈر کے طور پر رونما ہوگئے ورنہ یہ جنگ میری ہے، آپ رائے دینے کے بجائے آئینی بحث کریں، یہ اچھی بات ہے کہ آپ میرے حقوق کی جنگ لڑرہے ہیں، قانون پارلیمنٹ نے بنایا۔وکیل درخواست گزار خواجہ طارق رحیم کے دلائل مکمل ہوگئے۔ تو چیف جسٹس نے استفسار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کیا آپ پارلیمنٹ کو قانون سازی کے لیے محدود کرنا چاہتے ہیں، کیا یہ قانون عوامی مفاد کے لیے بنایا گیا یا ذاتی مفاد کے لیے، سوالوں کے جواب بعد میں تحریری طور جمع کروا دیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ رولز کو چھوڑیں آئین کی بات کریں، کیا آپ چیف جسٹس کو کسی کے سامنے جوابدہ نہیں بنانا چاہتے، ہم اس قانون سے بھی پہلے اوپر والے کو جواب دہ ہیں، آئین عدالت عظمیٰ سے نہیں، اللہ کے نام سے شروع ہوتا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مجھے بطور چیف جسٹس آپ زیادہ مضبوط کرنا چاہتے ہیں، لیکن اگر میں کیس کو نہیں لگاتا میری مرضی تو پھر کیا ہوگا، میں آپ کی درخواست 10سال نہ لگاؤں توآپ کیا کریں گے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قانون کو غیر آئینی کہنا آسان ہے، بتا دیں کون سا سیکشن کس آئینی شق سے متصادم ہے، بہت سے قانون مجھے بھی ذاتی طور پر پسند نہیں ہوں گے، جب میری ذاتی رائے کی حیثیت نہیں تو آپ کی بھی نہیں۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ اندرونی آزادی کے ساتھ ساتھ احتساب اورشفافیت بھی اہم ہے، ریکوڈک کیس میں ملک کو6ارب ڈالر کا نقصان ہوا، ایسے اختیارات آپ مجھے دینا بھی چاہیں تونہیں لوں گا، آپ جواب نہیں دینا چاہتے تو ہم اگلے وکیل کو سن لیتے ہیں، خواجہ طارق صاحب آپ جواب تیارکرلیں آپ کو سنیں گے۔ دوسرے درخواست گزار کے وکیل امتیاز صدیقی کے دلائل شروع کیے اور ا س دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں اپنے حلف کی خلاف ورزی نہیں کروں گا،عدالت عظمیٰ میں 57ہزارکیسز التوا کا شکار ہے، پارلیمنٹ بہتری لانا چاہ رہی ہے تو سمجھ کیوں نہیں رہے، اگر یہ برا قانون ہے تو آئین کے مطابق بتائیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ دنیا کا بدترین قانون بھی ہو سکتا ہے، آرٹیکل184/3کے تحت دیکھیں گے، آرٹیکل184/3تو عوامی مفاد کی بات کرتا ہے، آپ بتائیں اس آرٹیکل کے تحت یہ درخواست کیسے بنتی ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ چیف جسٹس کا اختیار 2 سینئر ججز کے ساتھ بانٹ دیا گیا، اختیار باٹنے سے کون سا بنیادی حق متاثر ہوا، پارلیمنٹ کا یہ اقدام توعدلیہ کی آزادی کو مضبوط بنائے گا، چیف جسٹس نے 2 سینئر ججز سے ہی مشاورت کرنی ہے۔جسٹس منصور شاہ نے ریمارکس دیے کہ عدلیہ کی آزادی خطرے میں پڑنے والی کوئی بات نہیں۔وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ یہ قانون پارلیمنٹ سے نہیں ہوسکتا فل کورٹ کر سکتا ہے۔ جس پر جسٹس منصور شاہ نے ریمارکس دیئے کہ قانون پارلمینٹ سے ہی آتا ہے اور کہاں سے آنا ہے، ہم سوئے رہیں، ارجنٹ کیس بھی مقرر نہ کریں تو وہ ٹھیک ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ ہرسوال کا جواب نہ دیں صرف اپنے دلائل دیں۔ جسٹس منصور شاہ نے وکیل امتیاز صدیقی سے استفسار کیا کہ آپ بتائیں بنیادی انسانی حقوق کیسے متاثر ہوئے۔ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ خلاف آئین قانون سازی سے بنیادی حقوق متاثر ہوتے ہیں۔چیف جسٹس نے وکیل امتیاز صدیقی سے استفسار کیا کہ آپ بتا دیں پھر کون سا بنیادی حق متاثر ہوا ہے، زیرالتواء مقدمات کی تعداد57 ہزار تک پہنچ چْکی ہے۔جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ قانون میں اپیل کا حق دیا جا رہا تو بہت اچھی بات ہے۔ جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ عدلیہ کی بیرونی ہی نہیں اندرونی آزادی بھی اہم ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ باہر کی دنیا میں بنیچ چیف جسٹس نہیں بناتا، بیلٹ کے ذریعے بنیچز کی تشکیل کا معاملہ طے پاتا ہے۔چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ امتیازصاحب لگتاہے آپ دلائل دینا ہی نہیں چاہتے، آپ جج نہیں آپ دلائل دیں۔عدالت عظمیٰ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی سماعت میں وقفہ کردیا، اور چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بریک کے بعد اٹارنی جنرل کو سن لیتے ہیں۔پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوئی تواس دوران اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے درخواست قابل سماعت ہونے پر دلائل شروع کیے، انوں نے کہاکہ پہلا سوال یہ ہے کہ کیا یہ درخواستیں کوئی عوامی مفاد کا معاملہ اْٹھا رہی ہیں،پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستیں قابل سماعت نہیں، انہوں نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ اس ادارے میں شفافیت لایا،یہ قانون خود عوام کے اہم مسائل حل کرنے کے لیے ہے، اٹارنی جنرل نے کہاکہ آئین کہتا ہے کہ رولز کو آئین کی مطابقت میں ہونا چاہیے، ایکٹ کی دفعہ 2 عدالت عظمیٰ کے طریقہ کار میں مزید شفافیت کے لیے بنایا گیا، دفعہ 2 کے تحت چیف جسٹس کے اختیارات کو تقسیم کیا گیا،چیف جسٹس نے کہاکہ یہ کہیں کہ چیف جسٹس کا بوجھ بانٹا گیا، اٹارنی جنرل نے مزیدکہاکہ بالکل آپ نے فنٹاسٹک طریقے سے بتا دیا، جب زیادہ دماغ ایک ساتھ بیٹھ کر کام کریں گے تو کام زیادہ شفافیت سے ہوگا۔علاوہ ازیںوفاقی حکومت نے ریویو آف ججمنٹ ایکٹ کے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کیخلاف نظر ثانی اپیل دائر کردی۔ حکومت کی جانب سے دائر درخواست میں عدالت عظمیٰسے فیصلے پر نظر ثانی کی استدعا کی گئی ہے۔درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ آرٹیکل 142 پارلیمان کو ایسی قانون سازی کا اختیار دیتا ہے، عدالتی فیصلہ مقننہ کے اختیارات پر انکروچمنٹ ہے۔ واضح رہے کہ عدالت عظمیٰ نے 11 اگست کو ریویو آف ججمنٹ اینڈ آرڈرز ایکٹ کو کالعدم کردیا تھا۔