مزید خبریں

پیغام شہادت سیدنا حسینؓ

سیدنا امام حسینؓ کی شہادت کا واقعہ تاریخ اسلام میں ہمیشہ خون آلود حرفوں میں لکھا گیا اور اشکبار آنکھوں سے پڑھا گیا ہے لیکن اس درد انگیز واقعہ اور ماتم خیز حادثہ کے اندر شریعت اسلامیہ کے بے شمار بصیرتیں مضمر تھیں چاہیے کہ سیدنا امام حسینؓ کے واقعہ شہادت کے اندر عزم و استقلال، صبر و ثبات، استبداد شکنی، قیام جمہوریت، امر بالمعروف، و نہی عن المنکر کی جو عظیم الشان بصیرتیں موجود ہیں ان کی یاد کو ہر وقت تازہ رکھیں اور کم از کم سال میں ایک بار اس مذہبی قربانی کی روح کو تمام قوم میں جاری و ساری کردیں۔
لیکن ان بصیرتوں کے علاوہ سیدنا امام حسینؓ کی ذات میں ایک اور عظیم الشان بصیرت بھی موجود ہے جس کا سلسلہ مذہب کی ابتدائی تاریخ سے شروع ہوتا ہے اور اس کی آخری کڑی اسلام کی تکمیل سے جاکر مل جاتی ہے۔
دنیا کی مذہبی تاریخ کی ابتدا عجیب بے کسی کی حالت میں ہوئی، ہم نے دنیا کے سخت سے سخت معرکوں میں باپ کو بیٹے کو شریک، بھائی کو بھائی کا حامی، بی بی کو شوہر کا مددگار پایا ہے لیکن صرف مذہب ہی کا روحانی عالم ایک ایسا عالم ہے جہاں باپ کو بیٹے نے ، بھائی کو بھائی نے، شوہر کو بی بی نے چھوڑدیا ہے بلکہ ان کی مصیبتوں میں اور بھی اضافہ کیا ہے، یہی سبب ہے کہ خاندان نبوت ہمیشہ اعزہ و اقارب کی اعانت سے محروم رہا۔ سیدنا نوح علیہ السلام نے ایک مدت تک شب و روز اپنی قوم کو دعوت توحید دی لیکن اس پیغمبرانہ آواز کی صدائے باز گشت صرف ان کی قوم ہی کے در و دیوار سے ٹکرا کر ناکام واپس نہیں آئی، بلکہ خود ان کے گھر کے در و دیوار نے بھی اس کو ٹھوکر لگائی اور خاندان نبوت کے چشم و چراغ یعنی ان کے بیٹے نے بھی اس نور کو قبول نہ کیا۔
سیدنا لوط علیہ السلام کے تمام خاندان نے اگر چہ ان کا ساتھ دیا لیکن خود ان کی بیوی ان سے علیحدہ ہوکر تمام قوم کے ساتھ عذاب الہی میں شامل ہوگئی۔
لیکن سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے خاندان نبوت میں ایک عظیم الشان انقلاب پیدا ہوا۔ سب سے پہلے سیدہ ہاجرہ علیہا السلام نے اس جہاد روحانی کی طرف قدم بڑھایا اور اپنے شوہر کے ساتھ اپنے لخت جگر کو ایک دادی غیر ذی زرع، میں ڈال دیا جہاں کئی سو میل تک آب و گیاہ کا پتہ نہ تھا یہ اسی سخت امتحان کی پہلی منزل تھی جس کے لیے خداوند تعالیٰ نے سیدنا اسمعیل علیہ السلام کو انتخاب کیا تھا۔ چنانچہ جب اس آخری امتحان کا وقت آیا تو انہوں نے باپ کے آگے سرتسلیم خم کردیا۔
سیدنا موسی علیہ السلام کے ساتھ بھی ان کے خاندان کی اعانت و رفاقت شریک رہی لیکن اسلام کے زمانے تک خدا کی راہ میں جو قربانیاں ہوئی تھیں وہ محض شخصی حیثیت رکھتی تھیں۔ یعنی انبیا نے شخصی طور پر خدا کی ذات پر اپنی اولاد کو یا اپنے آپ کو قربان کردیا تھا۔
جہاد کی یہ ابتدا تھی، مگر اس کی تکمیل شریعت اسلام پر موقوف تھی چنانچہ اسلام نے جس طرح عقاید و عبادات اور معاش و معاد میں تمام قدیم مذاہب کی تکمیل کی۔ اسی طرح جہاد کی حقیقت کو بھی مکمل اور واضح کردیا۔ اب تک کسی پیغمبر کے خاندان نے جہاد میں کوئی حصہ نہیں لیا تھا۔ شخصی طور پر بھی جو قربانیاں کی گئیں۔ وہ راہ ہی میں روک لی گئیں۔ سیدنا ابراہیم نے اپنے لخت جگر کو خدا کی نذر کرنا چاہا لیکن اس کا موقع ہی نہ آیا۔
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام سولی کی طرف بڑھے لیکن بچالیے گئے۔ آج تک تمام خاندان نبوت نے متفقہ طور پر اس میں شرکت نہیں کی تھی نہ اس کی کوئی نظیر تمام سلسلہ انبیا میں نظر آتی ہے کہ صرف بھائی، صرف بیٹا، صرف بیوی ہی نے مقصد نبوت میں ساتھ نہ دیا بلکہ بلا تمیز خاندان نبوت کے اکثر اعضا و ارکان راہ حق میں قربان ہوئے ہوں۔ اس لیے جب اسوہ ابراہیمی کے زندہ کرنے کا ٹھیک وقت آگیا تو خاندان نبوت کے مردو زن، بال بچے، غرض ہر فرد نے اس میں حصہ لیا اور جن قربانیوں کے پاک خون سے زمین کی آغوش اب تک خالی ان سے کربلا کا میدان رنگ گیا۔
پس سیدنا حسینؓ کا واقعہ کوئی شخصی واقعہ نہیں ہے۔ اس کا تعلق صرف اسلام کی تاریخ ہی سے نہیں بلکہ اسلام کی اصل حقیقت سے ہے۔ یعنی وہ حقیقت جس کا سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی ذات سے ظہور ہوا تھا، اور وہ بتدریج ترقی کرتی ہوئی سیدنا عیسی علیہ السلام کی ذات کو پہنچ کر گم ہوگئی تھی، اس کو سیدنا حسینؓ نے اپنی سرفروشی سے مکمل کردیا۔