مزید خبریں

اسلامی بنکاری کے بارے میں الجھن

سوال: پاکستان میں رائج موجودہ اسلامی بنکاری اور مروجہ عام بنکاری میں محض نام کا فرق ہے۔ آپ موجودہ اسلامی بنکاری کو کم ظالمانہ کہہ سکتے ہیں، غیرسودی نہیں۔ میری راے میں اسلامی بنکاری صرف اسلامی حکومت کے زیراثر ہوسکتی ہے۔ بنک تجارتی اداروں کو نفع و نقصان کی بنیاد پر قرضے دیں۔ اسی طرح بنک میں رقم جمع کروانے والا بنک سے منافع حاصل کرسکتا ہے اور نقصان بھی۔ دھوکا دہی کرنے والے کی جایداد ضبط کرنا اور لوگوں کو ان کے حقوق دلوانا حکومت کا کام ہو۔ ایمان دار لوگ کوآپریٹو سوسائٹیز کی طرز پر سرمایہ اکٹھا کر کے کاروبار کو جدید اور وسیع کرسکتے ہیں لیکن اس کام کے لیے بھی اچھا مسلمان ہونا ضروری ہے۔ سود کو حلال کرنے والے بنکوں کے تنخواہ دار ملائوں سے بھی بچنا ہوگا۔ ہمیں سادگی اختیار کرنا چاہیے اور اسلامی حکومت کے قیام کے لیے کوشش کرنا چاہیے۔
جواب: اسلامی بنکاری کے بارے میں آپ کو اپنی راے رکھنے کا پورا حق حاصل ہے۔ ہم عصر علما میں ہمیں ایسے حضرات بھی ملتے ہیں جو مروجہ اسلامی بنکاری اور تکافل پر شدید اعتراضات کرتے ہیں، اور ایسے علما بھی ہیں جو مجبوریوں اور مسائل سے آگاہی کے باوجود بعض اسلامی مالی اداروں کو اسلامی اصولوں کے مطابق اور سود سے پاک قرار دیتے ہیں۔ وہ کسی ’جبری بیعت‘ کی تبلیغ نہیں کرتے بلکہ شریعت کے اصولوں کی روشنی میں مالی اداروں کا جائزہ لے کر انھیں سند فراہم کرتے ہیں۔
ایک عام شہری کے لیے اسلام جس چیز کا مطالبہ کرتا ہے وہ حرام سے اجتناب اور حلال کا حصول ہے۔ اگر ایک مالی ادارہ نہ صرف یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ سودی کاروبار سے پاک ہے، بلکہ اس کے تمام پیداواری امور اور سرمایہ کاری کی اسکیموں کا علما نے بغور مطالعہ کیا ہے اور وہ اسے حلال کہتے ہیں، تو ایک عام شہری کو ظاہر پر اعتماد کرتے ہوئے ایسے علما کی بات پر اعتماد کرنا چاہیے جو اپنی شہرت اور علمی لیاقت کی بنا پر ملک اور ملک سے باہر مستند سمجھے جاتے ہوں۔
دوسری بات یہ بھی سامنے رہے کہ جب تک ایک مثالی اسلامی حکومت قائم نہ ہو، اس وقت تک کیا کیا جائے۔ کیا سودی بنکوں کو بہ اِکراہ قبول کیا جائے یا اسلامی بنکوں کو جو واضح طور پر سود سے پاک ہونے کا اعلان کرتے ہوں۔ ایک روز مرہ کی مثال سے اسے یوں سمجھیے کہ آپ روز کسی قصاب کی دکان پر جاکر گوشت خریدتے ہیں اور اپنی اور احباب کی دعوت کرکے لذیذ کھانوں کے مزے لیتے ہیں۔ کیا ایک مرتبہ بھی آپ نے قصاب یا ذبح کرنے والے مرکز جاکر یہ معلوم کیا کہ ہر ہر ذبیحہ کے وقت ذبیح نے صحیح طور پر اس پر اللہ کا نام لیا تھا یا آپ کو یہ یقین ہے کہ صدیوں سے قصاب چاہے اسے ایک لفظ قرآنی عربی کا نہ آتا ہو اور اس نے ایک جماعت بھی نہ پڑھی ہو، ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لے کر ہی کر رہا ہوگا۔
اس کے مقابلے میں اسلامی مالی ادارے ہر فرد کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ خود ادارے کی مالیاتی اسکیموں کے بارے میں تفصیلات معلوم کر کے دیکھ لے کہ اس میں سود کہاں ہے؟ اس کے باوجود اگر ایک بات ذہن میں بٹھا لی جائے کہ ہر اسلامی مالی ادارہ جو کام کررہا ہے اس میں بدنیتی اور دھوکا شامل ہے تو اس کا کوئی علاج نہیں۔ اسلام میں دین کی پوری عمارت کا انحصار نیت اور ظاہری عمل پر ہے۔ اگر ایک شخص بظاہر نماز پڑھ رہا ہے تو کسی مسلمان کو یہ حق حاصل نہیں کہ اس کے بارے میں افواہ پھیلاتا پھرے کہ گو بظاہر نماز تو پڑھ رہا ہے لیکن دل میں شیطان کو سجدہ کررہا ہے۔ دین میں اس شک اور ابہام کی کوئی گنجایش نہیں۔ بات دلیل اور ثبوت کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔ اگر کسی اسلامی مالی ادارے کے بارے میں کسی کے پاس ثبوت ہوں تو اس کا فرض ہے کہ انھیں عوام الناس کے علم میں لائے لیکن محض گمان اور شبہے کا اظہار نہ تقاضاے دین ہے نہ دیانت و امانت۔
اسلامی کوآپریٹو کی تجویز بہت مناسب ہے۔ اس پر لازماً کام ہونا چاہیے اور اْس کے لیے بھی اسلامی حکومت کے آنے کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں۔ جو حضرات اسے درست سمجھتے ہوں وہ آگے بڑھیں اور اس طرح کم از کم معاشی میدان میں اسلام کے اصولوں کو عملاً نافذ کر کے اسلام کی عملیت کی ایک مثال قائم کریں۔ اسلامی ریاست ان شاء اللہ ایسے تمام اداروں کو مزید تقویت دے گی۔ ایمان داری کا کلچر اسلامی ریاست کے آنے کے بعد نہیں، اْس سے بہت پہلے پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلامی ریاست کا راستہ اس کلچر سے ان شاء اللہ زیادہ آسان ہوجائے گا، اور جب مثالی ریاست قائم ہوگی تو وہ اس کلچر کو مزید ترقی دے گی۔