مزید خبریں

ہم ڈرامے میں اپنی اقدار چھوڑ کر بھارت کی طرز پر چل رہے ہیں

کراچی (رپورٹ: حماد حسین) ہم ڈرامے میں اپنی اقدار چھوڑ کر بھارت کی طرز پر چل رہے ہیں، ڈرامہ ہمارے معاشرے، اس کے اخلاق و تہذیبی نمائندگی نہیں کرتا بلکہ معاشرے میں اخلاقی گراوٹ پیدا کرنے اور نئی نسل میں بگاڑ پیدا کرنے میں اس کاکردار بہت زیادہ ہے، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈرامہ میں کیا دکھایا جائے؟ ڈرامہ معاشرے میں موجود برائیوں کی عکاسی کرتا ہے، ڈرامہ میں دراصل وہی کچھ دکھایا جارہا ہے جو معاشرہ میں ہوتا ہے، ڈرامہ کے ساتھ ساتھ معاشرے کے منفی پہلوئوں کی اصلاح پر زیادہ زور دیا جانا چاہیے۔ موجودہ جدید دور میں ہمارے ڈرامے بھی پڑوسی ملک کی طرز پرچل پڑے ہیں جس سے ہماری ثقافت و تہذیب کاکوئی لینا دینا نہیں ہے، آج کے ڈراموں میں رشتوں کے تقدس کا بھی خیال نہیں رکھا جارہا ہے۔ آج بھی ہمارے ڈرامے دنیا بھر میں پسند کیے جاتے ہیں، ہمارے فنکاروں نے دنیا میں اپنے فن کا لوہا منوایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج کے ڈرامے اور کل کے ڈراموں میں زمین آسمان کا فرق ہے آج ہر چیز کمرشلائزہوگئی ہے۔ ان خیالات کا اظہار وفاقی اردو یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی سربراہ ڈاکٹر عظمی سراج ،ٹی وی کی مقبول اداکارہ فرحین اقبال اورڈرامہ انڈسٹری کے نامور ہدایتکار سید عظیم احمد نے جسارت کے سوال کیا ہمارا ٹیلی ڈرامہ ہماری اقدار کا عکاس ہے؟ کے جواب میں کیا۔ وفاقی اردو یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی سربراہ ڈاکٹر عظمی سراج کا کہنا تھا کہ پاکستان کی ڈرامہ انڈسٹری اکثر و بیشتر تنقید کی زد میں رہتی ہے کہ پاکستانی ڈرامہ ہمارے معاشرے، اس کی اخلاقی و تہذیبی نمائندگی نہیں کرتا بلکہ معاشرے میں اخلاقی گراوٹ پیدا کرنے اور نئی نسل میں بگاڑ پیدا کرنے میں اس کاکردار بہت زیادہ ہے یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈرامہ میں کیا دکھایا جائے؟ معاشرے میں موجود برائیوں کی عکاسی ڈرامہ کرتا ہے۔ ڈرامہ میں دراصل وہی کچھ دکھایا جارہا ہے جو معاشرہ میں ہوتا ہے۔ معاشرہ ہمیشہ جامہ نہیں رہتا۔ نہ ہی تہذیبی اور معاشرتی اقدار جامہ رہتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان میں بدلائو آتا ہے۔ جس طرح آج سے 30، 40 سال پرانے ڈرامے اس زمانے کے معاشرے کے عکاس تھے۔ آج کا ڈرامہ بھی آج کے زمانے کا عکاس ہے۔ ڈرامے کے ذریعے منعکس ہونے والے معاشرے کے مثبت اور منفی پہلوئوں کو سمجھنا اور منفی پہلوئوں کی اصلاح کرنا بھی معاشرے کا فرض ہے لہٰذا ڈراموں کے ذریعے پیش کیا جانے والا مواد اگر معاشرے کے کچھ تلخ حقائق کی عکاسی کرتا ہے تو اس کو معاشرتی تبدیلی کے طور پر قبول کرنا ضروری ہے اور اس کے علاوہ ڈرامہ کے ساتھ ساتھ معاشرے کے منفی پہلوئوں کی اصلاح پر زیادہ زور دیا جانا چاہیے۔ کیونکہ ڈرامہ معاشرے کا عکاس ہے، ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ڈرامہ کوئی چیز تخلیق نہیں کرتا بلکہ اس کا کردار محض عکاسی تک محدود ہے۔ کسی بھی ڈرامے کا اسکرپٹ اپنے عہد کی تبدیلیوں سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ نظام اور اخلاقیات یا اخلاقی اصول بھی جامہ و ساکت نہیں ہوتے۔ سماجی تبدیلیوں سے نظریات و اقدار بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ غاروں کی زندگی سے لے کر عہد جدید تک انسانی سماج میں ہونے والی تبدیلیاں اس کا ثبوت ہے اور یہ عمل جاری رہے گا۔ ٹی وی کی مقبول اداکارہ فرحین اقبال کا کہناہے کہ ڈرامہ کسی بھی ملک کی ثقافت و تہذیب کاعکاس ہوتاہے، لیکن موجودہ جدید دور میں ہمارے ڈرامے بھی پڑوسی ملک کی طرز پرچل پڑے ہیں جس سے ہماری ثقافت و تہذیب کاکوئی لینا دینا نہیں ہے، آج بھی ہمارے ماضی کے ڈراموں کو پوری فیملی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھاجاسکتاہے آج کے ڈراموں میں رشتوں کے تقدس کا بھی خیال نہیں رکھا جارہا ہے، گنتی کے ڈرامے ہیں جو فیملی ڈرامے کہے جاسکتے ہیں، زیادہ تر ڈراموں میں فیشن، ساس، بہو کے جھگڑے کے ساتھ ساتھ عشق کو ایک الگ ہی انداز میں پیش کیا جارہا ہے، اس کی ایک وجہ اب وہ لکھنے والے بھی نہیں ہیں جو ماضی میں ہوا کرتے تھے، اسکرپٹ رائٹرز کا فقدان ہے۔ ڈرامہ انڈسٹری کے نامور ہدایتکار سید عظیم احمد کا کہنا ہے کہ موجودہ جدید دور میں جو ڈرامے پیش کیے جارہے ہیں ان میں شامل اسکرپٹ ہماری ثقافت و تہذیب کی عکاسی نہیں کرتا، خواتین کو جس انداز میں پیش کیا جارہا ہے اس سے ظاہر ہورہا ہے کہ ہماری خواتین سازشی، چالاک اور گھروں میں نفرت کو بڑھاوا دیتی ہیں جبکہ ماضی میںہم نے ہمیشہ اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی تہذیب و ثقافت کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈرامے بنائے ہیں جنہیں ہمارے عوام نے پسند بھی کیا ہے، اچھے کام کی تعریف خود ہوتی ہے جبکہ برے کام کو عوام خود ہی مسترد کردیتے ہیں، ڈرامے کی مقبولیت اس کے اسکرپٹ پر ہوتی ہے کیونکہ جتنی معیاری کہانی ہوگی اتنی ہی اچھی فلم یا ڈرامہ تیار ہوگا، ڈرامے معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں، آج بھی ہمارے ڈرامے دنیا بھر میں پسند کیے جاتے ہیں، ہمارے فنکاروں نے دنیا میں اپنے فن کا لوہا منوایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج کے ڈرامے اور کل کے ڈراموں میں زمین آسمان کا فرق ہے آج ہر چیز کمرشلائزہوگئی ہے۔