مزید خبریں

موجودہ حالات میں پاکستان عالمی اور علاقائی تنہائی کا شکار نظر آیا

کراچی(رپورٹ:حماد حسین)پاکستان کی موجودہ سیاسی عدم استحکام نے جہاں ملک کی معیشت کو متاثر کیا وہیں پاکستان خارجہ محاذ پر کچھ حد تک عالمی اور علاقائی تنہائی کا شکار بھی نظر آیا۔موجودہ سیاسی افراتفری اور کمزور معیشت کی بنا پر پاکستان عالمی سطح پرخاطر خواہ متحرک نظر نہیں آیا ملک کی زیادہ توجہ عالمی برادری سے قرضے کا حصول اور حالیہ سیلاب میں امداد کا حصول رہا۔عالمی سطح کے ساتھ ساتھ پاکستان علاقائی سطح پر بھی کافی حد تک تنہائی کا شکار رہا اس کی مثال ایران اور سعودی عرب کی بڑھتی ہوئی قربت ہے دونوں اسلامی ممالک کو قریب لانے میں پاکستان نے ماضی میں کافی اہم اقدامات کیے تاہم موجودہ صورتحال میں اس کا پاکستان زیادہ فائدہ نہیں اٹھاسکا، دونوں اسلامی ممالک نے پاکستان کے بجائے چین پہ زیادہ اعتماد کا اظہار کیا۔جامعہ کراچی کے شعبہ سیاسیات کے اسسٹنٹ پروفیسرڈاکٹر محمد علی، وفاقی اردو یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی اسسٹنٹ پروفیسرڈاکٹر رضوانہ جبیں اورجناح یونیورسٹی برائے خواتین کے شعبہ سیاسیات کی لیکچرار رخشندہ منیرنے جسارت کے سوال ’موجودہ حالات میں کیا پاکستان عالمی سطح پر تنہاتو نہیں ہو رہا ہے؟‘کے جواب میںاظہارخیال کیا۔ ڈاکٹر رضوانہ جبیںکاکہنا تھا کہ دنیا کا کوئی جدید ملک بھی تنہا نہیں چل سکتا اسے دوسرے ممالک کی مدد اور تعاون کی ضرورت رہتی ہے۔ بین الاقوامی تعلقات کے مطابق ریاستں کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر چل رہی ہیں۔ کوئی ملک ایسا نہیں جو صرف دوسرے ممالک کی ضروریات پوری کر رہا ہو اور اس کے بدلے کچھ ادائیگی نہ کرنا پڑے۔بدقسمتی سے پاکستان کا شمار دوسرے درجے کے ممالک میں ہوتا ہے، جو زیادہ تر بیرونی ممالک سے قرض اور امداد طلب کرتا ہے۔اس وقت پاکستان کو اپنے بیرونی قرضے بھی ادا
کرنے ہیں اور معاشی نظام کو بھی بہتر بنانا ہے اس کے ساتھ عوام کے لیے سہولتیں بھی پیدا کرنی ہیں۔ یہ سب کچھ کوئی بھی حکومت تبھی کر پائے گی جب اس کے اندرونی اور بیرونی معاملات میں توازن رہے، تاہم اس وقت پاکستان میں ایسی صورت حال پیدا کر دی گئی ہے عوام اداروں کو اہمیت دینے کو تیار نہیں ، عالمی کمپنیاں یہاں سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہیں ، حالات اس قدر پیچیدہ ہیں کہ پاکستانی بھی اپنا سرمایہ ملک سے نکال رہے ہیں اور دوسرے ممالک میں جا کر سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ ایسے حالات میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کے سیاسی حالات درست سمت میں آگے بڑھ سکیں گے۔ عام طور پر لوگوں میں موجودہ حالات کے بارے میں مایوسی پائی جاتی ہے اس غیر یقینی صورتحال نے لوگوں کو خوف میں مبتلا کردیا ہے۔ ان حالات کی وجہ سے پاکستان کس قدر تیزی سے عالمی سطح پر تنہا ہو رہا ہے اس بات کا اندازہ نہیں۔ بنگلا دیش جنوبی ایشیا کے ترقی پذیر ممالک میں سے ایک ہے لیکن اس کی فی کس مجموعی پیداوار پاکستان اور بھارت سے زیادہ ہے اس وقت بنگلا دیش ایک تیزی سے ترقی کرتا ہوا ملک سمجھا جا رہا ہے جبکہ پاکستان کے اقتصادی حالات ترقی یافتہ ممالک تو کیا ترقی پزیر ممالک بھی دوریاں اختیار کر رہے ہیں اور اس طرح عالمی سطح پر تنہا ہونا پاکستانی معیشت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔جامعہ کراچی کے شعبہ سیاسیات کے اسسٹنٹ پروفیسرڈاکٹر محمد علی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام نے جہاں ملک کی معیشت کو متاثر کیا وہیں پاکستان خارجہ محاذ پر کچھ حد تک عالمی اور علاقائی تنہائی کا شکار بھی نظر آیا۔موجودہ سیاسی افراتفری اور کمزور معیشت کی بنا پر پاکستان عالمی سطح پر کوئی خاطر خواہ متحرک نظر نہیں آیا ملک کی زیادہ توجہ عالمی برادری سے قرضے کا حصول اور حالیہ سیلاب میں امداد کا حصول رہا۔عالمی سطح کے ساتھ ساتھ پاکستان علاقائی سطح پر بھی کافی حد تک تنہائی کا شکار رہا اس کی مثال ایران اور سعودی عرب کی بڑھتی ہوئی قربت ہے دونوں اسلامی ممالک کو قریب لانے میں پاکستان میں ماضی میں کافی اہم اقدامات کیے تاہم موجودہ صورتحال میں اس کا پاکستان زیادہ فائدہ نہیں اٹھارہا، دونوں اسلامی ممالک نے پاکستان کے بجائے چین پہ زیادہ اعتماد کا اظہار کیا۔پاکستان کے پڑوسی ملک افغانستان میں ہونے والی سیاسی تبدیلی کے بعد جو پاکستان کی عالمی اور علاقائی اہمیت بنی تھی اس وقت پاکستان نیخاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھایا، طویل عرصے سے شکار خانہ جنگی کا ملک افغانستان میں پاکستان کے کچھ معاملات پر تنقید کرتا ہوا نظر آتا ہے جس کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں کافی حدتک سرد مہری اور تعلقات میں منفی اثرات نظر آ رہا ہے۔ پاکستان کو عالمی اور علاقائی سطح پر تنہا کرنے میںبھارت کے منفی پروپیگنڈے کا بھی بہت اہم کردار رہا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ موجودہ حکومت اپنے تمام تر مسائل کے باوجود بھارت کے منفی پروپیگنڈے کا مربوط انداز میں مقابلہ کر رہی ہے اور پاکستان کی عالمی ساکھ کو بحال کرنے میں اپنی جانب سے مکمل کوشش بھی کر رہی ہے۔اس کی واضح مثال شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستان نے نہ صرف بھارت کے منفی پروپیگنڈے کا مقابلہ کیا بلکہ کافی حد تک پاکستان کے مفادات کا تحفظ کیا جس سے مستقبل میں پاکستان کو عالمی تنہائی سے نکلنے میں کافی مدد ملے گی۔جناح یونیورسٹی برائے خواتین کے شعبہ سیاسیات کی لیکچرار رخشندہ منیرکا کہنا تھا کہ پاکستان کے موجودہ حالات دن بہ دن ہمیں سیاسی اور معاشی بحران کی طرف لے کر جارہے ہیں۔ یہ حالات پچھلے چند سالوں کا نتیجہ نہیں ہیں۔ پاکستان کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہماری جڑوں میں انتشار موجود ہے، پاکستان کو 1947ء کے بعدہی سے سیاسی، سماجی، معاشی اور معاشرتی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ہم نے ہمیشہ اپنے محسنوں کو نقصان پہنچایا۔ پھر چاہے وہ قائداعظم ہوں، لیاقت علی خان ہوں، محترمہ فاطمہ جناح ہوں ہم نے ان کی قدر نہیںکی، ہمیشہ سے اس ملک کی باگ دوڑ ایسے ہاتھوں میں گئی جسے ملک کی سالمیت سے کوئی سروکار نہیں رہا۔ ہر دور میں سیاستدانوں نے اپنے مفادات کو ملحوظ خاطر رکھا۔ ملک میں خانہ جنگی نے ہمیشہ بیرونی طاقتوں کو موقع فراہم کیا کہ وہ ہمارے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کریں۔ ہمیں کبھی ایک قوم بننے نہیں دیا گیا۔ صوبوں کے درمیان مسلسل تفریق کا نتیجہ 1971ء کی پاکستان اور بھارت کی تیسری جنگ ہے جس میں ہم نے اپنے ملک کا 55 فیصد حصہ مشرقی پاکستان گنوایا۔ جسے بعد میں بنگلادیش کا نام دیا گیا۔ اس کے بعد 1988ء کے انتخابات کے نتیجے میں ہمارے ملک کو پھر نفرت کی آگ میں جھونکا گیا۔ جس کے نتیجے میں 7.8 بلین کی ملکی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔ پھر پاکستان کو الگ طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ اس بار مذہبی تفریق ڈالنے کی کوشش کی گئی جس میں ہمارے سیاستدان کافی حد تک کامیاب رہے۔ شیعہ سنی فسادات کروائے گئے، مساجد اور امام بارگاہوں میں لوگ شہید کیے گئے۔ انتشار اور نفرت والی سیاست اور رویے ہمارے ملک میں ہمیشہ اپنائے گئے جس کا فائدہ امریکا، انڈیا اور دوسرے ممالک نے کافی حد تک اٹھایا۔ 9 مئی 2023ء کے واقعات اسی نفرت اور انتشار کی کڑی ہیں۔ جو پچھلے 76 سالوں سے ہمارے ملک میں چل رہی ہے۔ اس انتشار اور نفرت کا فائدہ کس کس کو ہوا اس پر بات کرنے سے بہتر ہے کہ غورکیا جائے کہ پاکستان کو ان سب واقعات سے کتنا نقصان ہوا۔ ہمارے معاشی مسائل میں مزید اضافہ ہوگا جو ہم آنے والے چند مہینوں میں دیکھیں گے۔ پچھلے10 دنوں میں انٹرنیٹ سروس بند ہونے سے ملک کو لاکھوں کا نقصان ہوا۔ حکومت کے اس اقدام پر نہ صرف پاکستان کے شہری پریشان ہوئے بلکہ غیر ملکی شہری بھی اس بات پر حیران ہیں کہ ایسے اقدام کی کیوں کر ضرورت پیش آئی۔ ہمارے ملک میں صحافیوں کا غیر محفوظ ہونا، بیرون ملک مقیم صحافیوں کے ذہنوں میں کئی سوالات چھوڑ گیا۔ جس سرزمین پر اس کے اپنے شہری محفوظ نہیں ہیں وہاں غیر ملکی افراد کی جان اور مال کیسے محفوظ ہوسکتے ہیں؟ جب ہمارے ملک میں بدامنی والی کیفیت ہوگی تو ہمارے ہمسایہ ممالک یا دوسرے ممالک ہمارے ساتھ معاشی اور معاشرتی تعلقات کیونکر رکھیں گے؟ اس بار فوجی تنصیبات پر حملے نے بھارت کو بات کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ حال ہی میں ترکی اور چین نے جی 20 کے اجلاس سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس میں کشمیر کی فلاح پر بات چیت ہونی تھی۔ پاکستان نے اگر انتشار اور نفرت کی سیاست کو پس پشت نہیں رکھا تو وہ دن دور نہیں جب ہم عالمی سطح پر تنہا ہوجائیں گے۔ان تمام حالات سے باہر نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اطمینان سے خود سے کچھ سوال کریں۔ کیا ہم حقیقت میں اپنے نظریے سے دور ہوگئے ہیں جس کی بنیاد پر ہم نے اس سرزمین کو حاصل کیا؟ وہ کون سے عناصر ہیں جو ہمیں اس نظریے سے دور کرنے کی مسلسل کوشش کررہے ہیں اور مسلسل کامیاب ہورہے ہیں؟