مزید خبریں

موجودہ سنگین حالات کے ذمے دار ادارے اور سیاستدان ہیں

کراچی (رپورٹ: حماد حسین) موجودہ سنگین حالات کے ذمے دار ادارے اور سیاستدان ہیں‘ ادارے اپنے دائرے میں رہ کرکام کریں‘ ان کی کسی کو سپورٹ دوسری طرف خلیج پیدا کرتی ہے‘ شہباز حکومت سیاسی درجہ حرارت کو کم کرنے اور معاشی مسائل حل کرنے میں ناکام رہی‘ ایک پارٹی اکثریت کھودے تو دوسری اقتدار میں خود بخود آجاتی ہے‘ اس میں فوج کیا کرسکتی ہے‘ دشمن جو 70 سال میں نہیںکرسکا وہ سیاستدانوں نے کردکھایا۔ان خیالات کا اظہار سینئر صحافی اور کالم نگار فہمیدہ یوسفی اور بریگیڈیئر ریٹائرڈ حارث نواز نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’ موجودہ حالات کے ذمہ دار سیاستدان ہیں یا ادارے؟‘‘ فہمیدہ یوسفی کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی سیاست میں ہمیشہ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کاکردار رہا ہے‘ اس وقت پاکستان کو انتہائی سنگین سیاسی، معاشی اور عدالتی بحران کا سامنا ہے‘ پی ڈی ایم حکومتی اتحاد اس کا ذمے دار عمران خان اور اس کے سہولت کاروں کو ٹہراتاہے جس سے ان کی مراد عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ دونوں ہیں جبکہ عمران خان تو اس ذمہ داری سے بری الذمہ ہوکر کہتے ہیں یہ سب کچھ اسٹیبلشمنٹ کا کیا دھرا ہے اور حکمران اتحاد کو کسی کھاتے میں نہیںلاتے تاہم دیکھا جائے تو حکمران جماعت کی عدلیہ سے محاذ آرائی اور خان صاحب کی اسٹیبلشمنٹ سے محاذ آرائی سے نقصان ملک کو ہو رہا ہے ‘ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ سب ایک ایک قدم پیچھیہٹ کر مذاکرات کی میز پر بیٹھتے اور ملک کی بہتری کے لیے کوئی راہ نکالتے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو رہا‘ پاکستان کے دشمن جو 70 سال میں نہیںکرسکے وہ اس ملک کے سیاستدانوں نے ایک دن میںکر دکھایا تاہم دوسری طرف اداروں کو بھی اپنے دائرہ کار کے مطابق کام کرنا ہوگا‘ ان کی کسی کے لیے بے تحاشا سپورٹ دوسری طرف خلیج کی بنیاد بن رہی ہے‘ ہماری معزز عدلیہ کو بھی اپنے رویے پر نظر ثانی کی اشد ضرورت ہے‘ ملکی سلامتی اور قومی املاک کو نشانہ بنانے والوں کی اور جن لوگوں نے نوجوانوں کو اس کے لیے اکسایا ان دونوں کی شدید مذمت ہونی چاہیے لیکن ہماری اسٹیبلشمنٹ کو بھی اپنا غیر سیاسی ہونا صرف بیانات سے نہیں بلکہ عملی اقدامات سے ثابت کرنا ہوگا۔ تحریک انصاف کو 9 مئی کے واقعات پر شرمندگی کا اظہار کرنا چاہیے‘ اب آپ پاک فوج کی کور کمانڈر کانفرنس کا اعلامیہ دیکھ لیں‘ آرمی چیف کا بیان دیکھ لیں‘ فوج میں شدید غم و غصہ ہے جو جائز بھی ہے‘ ہمارے شہدا نے اپنی جانیں اس ملک کی سلامتی کے لییدی ہیں ‘ خان صاحب کے اکسانے پر مشتعل جتھوں نے شہدا کی یادگاروں کو نقصان پہنچایا‘ جن لوگوں نے دفاعی اور ملکی املاک پر حملہ کیا ‘ ان کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے‘ خان صاحب کو ان کی انا پرستی لے ڈوبے گئی۔ حارث نوازکا کہنا تھاکہ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ آرمی نے اکتوبر 2021ء میں عمران خان کو بڑا کلیئر بتایا تھا کہ آپ کے25 ایم این اے، ایم پی اے آپ کو چھوڑ کے جا رہے ہیں‘ آپ کوئی راستہ تلاش کریں‘ کیا ہم ان کے ساتھ رابطہ کر سکتے ہیں تاکہ ان کو جو بھی شکوہ ہے اس کو دور کرسکیں۔ پھر یہ بھی کہا کہ آپ تحریک عدم اعتمادکے حوالے سے کچھ کریں لیکن وہ اس کے لیے کچھ نہیں کرسکے‘ جب ان کو کہا گیا کہ آپ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی جا رہی ہے‘ اس حوالے سے کچھ کریں کیونکہ ہم غیر سیاسی ہو رہے ہیں اور اب تمام معاملات سیاسی ہوں گے اور اس کے بعد جو ہے، آپ نے دیکھ لیا کہ پھر اس کے بعد اپریل میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران کی حکومت چلی گئی۔ جنرل باجوہ جب ریٹائرڈ ہوئے ہیں تو 2022 ء نومبر میں تو انہوں نے خود کہا کہ ٹھیک ہے، فوج نے کچھ غلطیاں کی ہیں لیکن اب ہم سیاست سے باہر ہیں۔ عمران خان نے بیانیہ دیا کہ وہ سائفر آیا ہے اور اس کے بعد یہ کہا کہ امپورٹڈ گورنمنٹ بن گئی ہے‘ اس کے بعد انہوں نے جلسوں میں کہنا شروع کردیا کہ یہ جو ادارے ہیں وہ میر صادق، میر جعفر جیسے ہیں اور نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے اور آہستہ آہستہ انہوں نے اس بیانیے کو اتنا دہرایا کہ لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ شاید فوج پی ڈی ایم کی حکومت کے خلاف ہے اور اس کے بعد عوام میں آہستہ آہستہ غصہ بڑھتا گیا اور 9 مئی کو وہ ہو اجس کا کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔ اس کے ساتھ سب سے بڑی غلطی پی ڈی ایم کی ہے‘ لوگوں کو زیادہ یہ افسوس نہیں تھا کہ عمران خان کو ہٹادیا کیونکہ اگر آپ کو یاد ہو کہ 2022ء کے پہلے مہینے میں عمران خان کی پارٹی کی مقبولت آہستہ آہستہ کم ہو رہی تھی۔ اس لیے ان کے 25 ایم این اے ان کو چھوڑ کر گئے تھے اور لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ جب نئے الیکشن ہوںگے تو پی ٹی آئی کا ٹکٹ لینے والا کوئی نہیں ہوگا کیونکہ ان کی کارکردگی نہیں تھی‘ مہنگائی بھی ہو رہی تھی‘ ساتھ جو لوگوں سے وعدے کیے تھے پورے نہیں ہو رہے تھے۔ اب اس کے ساتھ زیادہ اعتراض اس بات پر ہوا کہ یہ پی ڈی ایم کے لوگ چور اور ڈاکو ہیں، انہوں نے ملک کو لوٹ لیا، پیسہ لیکر باہر چلے گئے ‘ ان چوروں کو اقتدار میں لے کر کیوں آئے لیکن لوگوں کو یہ احساس نہیں ہے کہ اس میں آرمی نے کچھ نہیں کیا‘ ایک نارمل جمہوری عمل ہے‘ اسمبلی میں اگر آپ کے پاس اکثریت نہیں ہے تو دوسری پارٹی خود بخود اقتدار میں آجاتی ہے اور وہ سارے جن کے آپس میں نظریات بھی نہیں ملتے تھے‘ انہوں نے مل کر حکومت بنا لی‘ شہباز شریف پر اعتراض رہا کہ یہ کیوں آئے ہیں‘ ان پر کرپشن کے کیسز ہیں۔ موجودہ حکومت کی ذمہ داری تھی کہ پولیٹیکل ٹمپریچر کو ڈاؤن کرتی، لا اینڈ آرڈر کو بہتر کرتی، حالات کو سازگار کرتی ، تخلیقی ماحول کو سازگار بناتی مگر موجودہ حکومت بھی اس میں ناکام رہی۔