مزید خبریں

امتحانی بورڈ کو آؤٹ سورس کرنا ناقابل عمل ہے،لاکھوں بچوں کا مستقبل داؤ پر لگ گیا

کراچی(رپورٹ:حماد حسین)امتحانی بورڈز کو آوٹ سورس کرنا ناقابل عمل ہے ‘لاکھوں بچوںکا مستقبل دائو پرلگ گیا‘سیکرٹری بورڈز و جامعات نے کئی روز سے عوام کو ذہنی اذیت میں مبتلا رکھا ہے‘ تعلیم ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات میں شامل نہیں ‘تعلیمی بورڈز میں میرٹ کا قتل کیا گیا‘ امتحانی بورڈز میںخالی اسامیوں کو پرکیا جائے‘ امتحانات کو شفاف بنانے کی ان میںصلاحیت موجودہے ‘ انتظامیہ تعاون نہیں کرتی ۔ان خیالات کا اظہار سندھ پروفیسر لیکچررز ایسوسی ایشن کے مرکزی رہنما منور عباس، آل پاکستان پرائیویٹ اسکول اینڈ کالج ایسوسی ایشن کے چیئرمین حیدر علی اور سپلا کے سبق مرکزی رہنما فیروز احمد نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا امتحانی بورڈز کو آئوٹ سورس کرنے سے تعلیمی اہداف حاصل ہوسکیں گے؟‘‘ منور عباس کا کہنا تھا کہ انسان کی جب نیت ٹھیک ہو تو پھر اہداف بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں مگر جب نیت ہی میں کھوٹ ہو تو پھر نتائج ایسے ہی نکلتے ہیں جیسے امتحانی بورڈز کو آؤٹ سورس کا اعلان کرنے والوں کے ساتھ ہوا۔ پاکستان اور بالخصوص سندھ کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ تعلیم یہاں کے حکمرانوں کی ترجیحات میں کبھی شامل ہی نہیں رہی‘ یہاں جو بھی حاکم آیا اپنا اُلو سیدھا کرنے میں لگا رہا‘ کبھی کسی ماہر تعلیم کو نہ وزیرِ تعلیم بنایا گیا نہ ہی سیکرٹری
تعلیم کے درجے پر فائز کرنے کے قابل سمجھا گیا۔ وہ اپنے آپ کو عقلِ کل سمجھنے لگتا ہے‘ اسی سوچ کے حامل سیکرٹری بورڈز و جامعات نے پچھلے دنوں سندھ بھر کے لاکھوں بچوں، ان کے والدین اور ہزاروں اساتذہ کو ذہنی اذیت میں مبتلا رکھا‘ جب امتحان دینے والے اور امتحان لینے والے ذہنی اذیت کا شکار ہوں گے تو خود ہی بتائیں کہ امتحانی بورڈز کو آؤٹ سورس کرنے سے تعلیمی اہداف کیسے حاصل ہو سکیں گے؟امتحانات کو آوٹ سورس کرنا، وقت اور قانون دونوں طرح سے نا قابل عمل ہے۔ حیرانی اس امر پر بھی ہے کہ جس سیکرٹری بورڈز و جامعات نے سندھ کے تعلیمی بورڈز کو آؤٹ سورس کرنے کا خواب دیکھاہے وہ سندھ کے آٹھوں تعلیمی بورڈز میں سے کسی ایک میں بھی ناظم امتحانات تعینات نہ کرسکا ‘ 5 تعلیمی بورڈز اپنے سربراہان (چیئرمین بورڈ ) سے محروم ہیں‘ کسی ایک بھی بورڈ میں سیکرٹری بورڈ تعینات نہ کر پائے‘ وہ چلے تھے سندھ کے تعلیمی بورڈز کو آؤٹ سورس کرنے۔ یہ ایک انتہائی سنجیدہ اور حساس مسئلہ ہے، جس کا تعلق سندھ کے 10 لاکھ بچوں سے براہ راست جڑا ہوا ہے۔ زمینی حقائق سمجھے بغیر اس قسم کے فیصلوں سے تعلیمی اہداف حاصل نہیں کر سکتے۔ تعلیمی بورڈز خود مختار ادارے ہیں جن کا کام صرف اور صرف امتحانات سے متعلق ہوتا ہے ،آپ ان کا بنیادی کام لے کر کسی اور کو دیکر تعلیمی اہداف کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟ تعلیمی بورڈز میں میرٹ کا قتلِ عام کرتے ہوئے اپنے من پسند افراد کو بٹھا دیا، ان کو مافیا بنانے میں سہولت کاری فراہم کرتے ہوئے تعلیمی بورڈز کا ستیا ناس کر دیا ہے اور اب تعلیم اور صوبے کے خیرخواہ بننے کا ناٹک رچانے کی ناکام کوشش کی گئی لہٰذا تعلیمی اہداف حاصل کرنے کے لیے میرٹ پر نیک نیتی کے ساتھ فیصلے کرنے ہوں گے۔ تعلیمی بورڈز میں بیٹھے گھس بیٹھیوں اور مافیاز کو شکست دینے کے لیے وہاں کی خالی تمام اہم اسامیوں کو فوراً میرٹ پر ماہرین تعلیم کے ذریعے پر کیا جائے۔ حیدر علی کا کہنا تھا کہ تعلیم قوموں کے لیے انتہائی اہم ہے اور امتحانات تعلیم کے نتائج اور اثرات کے لیے بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ دنیا بھر میں امتحانی بورڈز یا اتھارٹیز اس عمل کے لیے قائم کی جاتی ہیں نہ کہ بنے بنائے امتحانی بورڈز کو مفلوج کر کے کسی غیر مصدقہ اور غیر معتبر کمپنی کے حوالے اس حساس کام کو کر دیا جائے۔ یا پھر اسے ایک یا ایک سے زیادہ اداروں کے درمیان بندربانٹ کا ذریعہ بنا دیا جائے۔ امتحانات کی اہمیت، حساسیت اور اعتباریت صرف اور صرف ایک مکمل اور خود مختار ادارہ سے مشروط ہے۔ تعلیمی اہداف تو دور کی بات ہے نظام تعلیم ہی قابل قبول نہیں رہتا۔ فیروز احمد کا کہنا تھا کہ میرا سادہ سا جواب ہے ’’نہیں‘‘۔ پہلی بات یہ ہے کہ امتحانی بورڈ زکی موجودگی میں آخر امتحانات کو آئوٹ سورس کرنے کا حکام بالا کو کیوں خیال آیا۔ لگتا ہے کہ امتحانی بورڈز تعلیمی اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔ جب تک بورڈز کے اسٹرکچر کو مکمل نہیں کیا جاتا تب تک یہ ناممکن ہے۔ سوچنے کی بات ہے جس بورڈ میں ناظم امتحانات نہ ہوں، سیکرٹری، اسسٹنٹ کنٹرولر اور عملہ ہی مکمل نہ ہو تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ امتحانات بہترین انداز میں ہوں گے اور اگر ہیں بھی تو عارضی بنیاد پر تقرر کیا گیا ہو‘ سندھ کے بورڈز کی صورت حال دیکھئے اندازہ ہوجائے گا۔ بورڈز اور یونیورسٹیز کے لیے الگ سیکرٹری اور وزیر موجود ہیں لیکن ان کی کارکردگی صفر ہے‘ یہ لوگ صرف چیئرمین کنٹرولر امتحانات اور دیگر عملے کے تقرر میں طویل عرصہ لگاتے ہیں انہیں یہ اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ امتحانات کب ہونے ہیں اور فوری تقرر ضروری ہے لیکن ان کا کوئی ہدف نہیں ہوتا۔ تعیناتی میں شفافیت نہیں ہوتی من پسند شخص کو ایک بورڈ سے لا کر دوسرے بورڈ میں بٹھا دیا جاتا ہے اور ان سے ایک خطیر رقم اینٹھ لی جاتی ہے۔ اب ہم ذرا آئوٹ سورس کی بات کرتے ہیں۔ اول وہ کونسا ادارہ ہے جو یہ فرائض انجام دے گا۔ اس کے وجود کا کوئی پتہ ہی نہیں ہے۔ اور اس سال تو بالکل ہی ناممکن ہے کیوں کہ امتحانات سر پر ہیں۔ ہمارے اساتذہ اور بورڈز میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ امتحانات کو شفاف بنا سکیں لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بورڈز کے عملے اور اساتذہ کے ساتھ انتظامیہ مکمل تعاون نہیں کرتی۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ بورڈز کے عملے کو ٹریننگ دی جائے اور انہیں اس قابل بنایا جائے کہ وہ اس ڈیجیٹلائزیشن کے مطابق اپنے فرائض انجام دے سکیں۔ پی ایچ ڈی، ماسٹر، قابل اور تجربہ کار اساتذہ سے استفادہ کیا جائے‘ ہر مضمون کے اساتذہ کی ایک مکمل ٹیم ہو جنہیں ای مارکنگ کی ٹریننگ ہو۔ سوالنامہ ہر مضمون کا ہونا چاہیے کیونکہ یہی اساتذہ ہیں جن کے پاس مکمل علم اور تجربہ موجود ہے۔ آخر یہ تو پتہ چلے کہ آئوٹ سورس کی اتھارٹی کون سی ہے۔ وہاں بھی تو ماہرین تعلیم ہوں گے۔ تو ابھی تک صرف آئوٹ سورس ہی سن رہے ہیں لیکن کوئی شکل میسر نہیں۔ میری تجویز یہ ہے کہ تمام چیئرمین بورڈز کو کہا جائے کہ آپ اپنے اپنے بورڈ میں اس قسم کی انقلابی تبدیلیاں لائیں کہ دور جدید کے تقاضوں کے مطابق ہم اپنے تعلیمی اہداف کو مکمل کرسکیں۔ ایک مضبوط ویجیلنس ٹیم بھی امتحانات کے دوران اپنا بھرپور کردار ادا کرے تو بہتر نتائج کی توقع ہوسکتی ہے۔ انتہائی ناگزیر ہو تو رزلٹ کمپائیلنگ کا کام تجرباتی طور پر آئوٹ سورس کیا جاسکتا ہے لیکن پھر یہ کام کرنے والے بھی تو اساتذہ ہوں گے یا آئی ٹی اسپیشلسٹ؟۔