مزید خبریں

عید: قومی مزاج کا پیمانہ

یکم شوال اہل اسلام کی عید کا دن ہے اس دن ہر چھوٹا بڑا اور امیر وغریب مسلمان اپنی استطاعت کے مطابق بہتر سے بہتر خوراک وپوشاک کا اہتمام کرتا ہے اور غریبوں اور ناداروں میں صدقۂ فطر تقسیم کرکے طلوع آفتاب کے تھوڑی دیر بعد حمد وتکبیر کے نغمے گنگناتا ہوا کھلے میدان کی طرف نکل پڑتا ہے، جہاں مسلمانوں کا ایک انبوہ عظیم جمع ہوتا ہے۔ پھر سب مل کر اللہ تعالیٰ کے سامنے شکر وسپاس اور عجز و نیاز کے طور پر دو رکعت نماز عید ادا کرتے ہیں۔ اس کے بعد اپنے امام وخطیب کی زبانی خدائی احکام وپیغام سن کر اپنے اپنے گھروں کو واپس لوٹتے ہیں۔ واپسی میں بھی حمد وتکبیر کے نغمات جانفزا کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
مسلمانوں کے لیے خوشی ومسرت کا یہ موقع خود اللہ رب العالمین نے مقرر فرمایا ہے۔ رسول اللہؐ جب ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو دیکھا کہ اہل مدینہ سال میں دو دن یعنی نو روز اور مہر جان کو عید مناتے ہیں۔
آپ کے دریافت کرنے پر لوگوں نے بتایا کہ ہم دور جاہلیت سے یہ دونوں عید مناتے آ رہے ہیں، رسول اللہؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمھیں ان دو دنوں سے بہتر دو دن عطا فرما دیے ہیں یعنی عید الاضحی اور عید الفطر کے دو دن۔
مختلف قوموں کے تہوار منانے کا طریقہ ان کے قومی مزاج اور اجتماعی کردار کا مظہر ہوتا ہے اگر کوئی قوم اپنے تہوار کے موقع پر رنگ رلیوں میں پڑتی ہے اور شراب و شباب کے تقاضوں اور مستیوں کا خیر مقدم اور اہتمام کرتی ہے، عیاشی وہوس رانی کے لیے بے لگام ہو جاتی ہے اور اس کے افراد سے فحش گفتاری وفحش کرداری کے مظاہرے ہوتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس قوم کو بدعملی کی چاٹ لگ چکی ہے اس کا کریکٹر اندر ہی اندر کھوکھلا ہو چکا ہے اور تہوار کی مناسبت سے جو کچھ بے پردہ ہو کر منظر عام پر آ رہا ہے سال کے بقیہ ایام میں ایسا ہی کچھ پس پردہ ہوتا ہے۔
اگر کوئی قوم اپنے تہوار کے موقع پر خداپرستی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ اس کا جوش عبودیت بڑھ جاتا ہے، غریبوں، تنگدستوں، مظلوموں اور مجبوروں کی امداد وخیر خواہی اور داد و فریاد رسی کا اہتمام فزوں تر ہو جاتا ہے۔ اس کے جسم ولباس اور در وبام سے صفائی و پاکیزگی اور شرف و وقار کا اظہار ہوتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ قوم خداپرستی، انسانیت نوازی اور عزت نفس کی راہ پر گامزن ہے۔
یہ رب العزت کا بے پایاں فضل ہے کہ ہمارے تہوار کا رنگ پہلا نہیں بلکہ دوسرا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ ہمارے مزاج کی ساخت خداپرستی، عدل و انصاف اور شرف وعزت کے عناصر سے ہوئی ہے۔ نفس پرستی، ہوس رانی، ظلم واستبداد اور بد خواہی و خود غرضی کے عناصر سے نہیں۔ لیکن اس مرحلے پر پہنچ کر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم مزاج پر قائم ہیں یا اس سے ہٹ چکے ہیں۔
اس کا جواب اور جواب کی بنیاد دونوں بالکل واضح ہیں۔ اگر ہمارا تہوار صدقۂ فطر کی تقسیم، حمد و تکبیر کی نغمہ خوانی، دوگانہ عیدگاہ کی ادائیگی، لباس ومکان کی صفائی، حلال وطیب خوراک کے اہتمام اور خوشی ومسرت اور تفریح وغیرہ کے دوسرے جائز اور مباح طریقوں کے اندر محدود ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم اپنے مزاج اور اپنی ساخت پر قائم ہیں۔ اگر یہ ساری چیزیں سماجی رسم بن چکی ہیں اور ہماری دلچسپیوں کا اصل مرکز سنیما اور سیر وتفریح کے ناجائز مقامات ہو چکے ہیں اور ہمارے گھومنے پھرنے کا اصل منشا یہ ہوتا ہے کہ ہوس رانی کے ذرائع تلاش کیے جائیں تو سمجھنا چاہیے کہ ہمارا مزاج مسخ ہو چکا ہے۔
یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ عیدگاہ میں عورتوں کی حاضری کے جواز وعدم جواز کے مسئلے پر تو بڑی دقیق اور لمبی موشگافیاں کی جاتی ہیں اور اس سنت رسول پر پابندی عائد کرنے کی فکر میں ہمارے علما کا ایک گروہ دور حاضر کی فتنہ سامانیوں کا بڑا ہولناک نقشہ پیش کرتا ہے لیکن نماز عید کے بعد مسلم آبادیوں کی گلی کوچوں میں اور اطراف و اکناف کے راستوں پر مردوں اور عورتوں کی جو بے تحاشا بھیڑ بھاڑ اور دھکم دھکا ہوتی ہے، بسوں اور سواریوں پر مرد اور عورتیں جس طرح باہم ٹکراتے اور پستے ہیں، سنیما ہالوں میں برقع پوش عورتوں کا غول جس طرح بے محابہ گھستا ہے وہ ہمارے ان علما کو نظر نہیں آتا۔ نہ ان بے حیائیوں اور بداعمالیوں کو روکنے کی کوئی کوشش ہوتی ہے اور نہ ان کے سلسلے میں کسی فتنہ سامانی کا حوالہ دیا جاتا ہے گویا برائی اور فتنے کے جو کچھ اندیشے اور خطرات ہیں وہ صرف سنت نبوی کی پیروی اور خدا کی عبادت و بندگی میں ہیں۔
’’یالیت قومی یعلمون‘‘۔ (کاش کہ میری قوم کے لوگ ان کو جانتے)
ہم حیران ہیں کہ نیچے سے اوپر تک اس بگاڑ وفساد اور مزاج و فکر کی اس کوتاہ اندیشی پر کیا عرض کریں؟ خدایا ہمیں اپنی شریعت اور اپنے شعار کی طرف پلٹنے کی توفیق عطا فرمائے ؎
مشکلیں امت مرحوم کی آساں کر دے
مور بے مایہ کو ہمدوش سلیماں کر دے
جنس نایاب محبت کو پھر ارزاں کر دے
یعنی ہم دیر نشینوں کو مسلماں کر دے
اے خوشاں روز کہ آئی بصد ناز آئی
بے حجابانہ سوئے محفل ما باز آئی