مزید خبریں

اخلاص اور دکھاوے کی خیرات

دکھاوے کی خیرات بھی اکارت جاتی ہے اور یہ برائی پچھلی برائی سے بھی سخت ہے کیونکہ جو شخص نیکی کو نیکی کے لیے نہیں بلکہ نام و نمود کے لیے کرتا ہے اور خدا کی جگہ انسانوں کی نگاہوں میں بڑائی چاہتا ہے وہ یقینا خدا پر سچا ایمان نہیں رکھتا۔
جو لوگ دکھاوے کے لیے نیکی کرتے ہیں، ان کی مثال ایسی ہے، جیسے پہاڑ کی ایک چٹان، جس پر مٹی کی ایک تہہ جم گئی ہو۔ ایسی جگہ پر کتنی ہی بارش ہو لیکن کبھی سرسبز نہ ہوگی۔ کیونکہ اس میں پانی سے فائدہ اٹھانے کی استعداد ہی نہیں ہے۔ پانی جب برسے گا تو دھل دھلا کر صاف چٹان نکل آئے گا۔
برخلاف اس کے جو لوگ اخلاص کے ساتھ خیرات کرتے ہیں ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک بلند اور موزوں مقام پر باغ ہو۔ جب بارش ہوگی تو اس کی شادابی دوگنی ہوجائے گی۔ اگر زور سے پانی نہ برسے تو ہلکی ہلکی بوندیں بھی اسے شاداب کردیں گی کیونکہ اس میں سرسبزی و شادابی کی استعداد موجود ہے۔
اس تمثیل میں خیرات کو بارش سے اور زمین کو دل سے تشبیہہ دی گئی ہے، اگر زمین ٹھیک ہے یعنی دل میں اخلاص ہے، تو جس قدر بھی عمل خیر کیا جائے گا برکت اور پھل لائے گا۔ اگر زمین درست نہیں ہے یعنی اخلاص نہیں ہے، تو پھر کتنی ہی دکھاوے کی خیر خیرات کی جائے سب رائیگاں جائے گی۔
اگر دل میں اخلاص ہے تو تھوڑی خیرات بھی برکت و فلاح کا موجب ہوسکتی ہے۔ جس طرح بارش کی چند ہلکی بوندیں بھی ایک باغ کو شاداب کرسکتی ہے۔
عالم مادی اور عالم معنوی دونوں کے احکام وقوانین یکساں ہیں۔ جو بوؤ گے اور جس طرح بوؤ گے ویسا ہی اور اسی طرح کا پھل بھی پاؤ گے۔
تم میںکون ہے جو یہ بات پسند کرے گا کہ اپنی ساری عمر باغ لگانے میں صرف کردے اور سمجھے اس کی پیداوار بڑھاپے میں کام آئے گی لیکن جب بڑھاپا آئے تو دیکھے کہ سارا باغ جل کر ویران ہوگیا ہے؟ یہی حال اس انسان کا ہے جو ساری عمر دکھاوے کی نیکیاں کرتا رہتا ہے اور سمجھتا ہے عاقبت میںکام آئیں گی۔ لیکن جب عاقبت کا دن آئے گا تو دیکھے گا کہ اس کی ساری محنت رائیگاں گئی اور اس کی کوئی تخم ریزی بھی پھل نہ لاسکی۔