مزید خبریں

امت کا مستقبل اور ائمہ مساجد

رسولؐ اللہ نے مدینہ تشریف لانے کے بعد پہلا کام یہ کیا کہ مسجد کی تعمیر کی۔ اس بات سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسلام میں مسجد کا کیا مقام اور کتنی اہمیت ہے۔ اس مسجد کی تعمیر میں آپؐ خود شریک ہوئے اور اپنے ہاتھوں سے پتھر اٹھائے۔ اگرچہ مسجد نبویؐ اپنی عمارت اور زیبایش کے لحاظ سے ایک عام سی مسجد تھی لیکن یہ مسجد دراصل ان تمام عالی شان مساجد کے قیام کی بنیاد بنی جو بعد میں دہلی‘ قرطبہ‘ اصفہان‘ تاشقند اور لاہور میں نظر آتی ہیں۔ مسجد کا تعلق اْمت کی زندگی سے اسی وقت قائم ہوگیا تھا۔ مسجد دعوت‘ عدالت اور سیاست کا مرکز بن چکی تھی۔ مقدمات کا فیصلہ یہاں کیا جاتا‘ جہاد کے لیے پکار کر لوگوں کو جمع یہاں کیا جاتا‘ لشکر کی روانگی بھی یہیں سے ہوا کرتی۔ مجلس شوریٰ کا اجلاس بھی یہاں ہی ہوا کرتا تھا۔ پنج وقتہ نماز مسجد میں ہوتی تھی حتیٰ کہ منافق بھی مسجد میں حاضر ہوتے تھے۔ یہ تصور نہیں تھا کہ کوئی فرد‘ اْمت کا ایک فرد ہو اور مسجد میں حاضر نہ ہو۔ فجر کی نماز کی خصوصیت سے اہمیت تھی۔ خلیفۂ وقت سیدنا عمرؓ جب نماز فجر کے لیے مسجد جایا کرتے تھے تو لوگوں کو نماز کے لیے جگایا کرتے تھے۔ صفیں درست اور سیدھی رکھنے کا مکمل اہتمام کرتے تھے۔ گویا مسلمان معاشرے میں مسجد‘ اْمت کی پوری زندگی کا مرکز تھی۔ سیاست‘ عدالت اور اجتماعی زندگی کا مرکز بھی مسجد تھی اور تعلیم و تربیت کا مرکز بھی۔ اسلام کی تاریخ میں بڑے بڑے مدارس مساجد سے ملحق رہے۔ وہ مدارس ہماری بڑی جامعات تھیں‘ ملت مسلمہ کی کیمبرج اور آکسفورڈ تھیں۔ ان مساجد سے متصل طلبا کے قیام کے لیے حجرات تعمیر کیے گئے تھے۔ نظام تعلیم مساجد کے گرد قائم تھا۔
یہ ہمارا عروج کا دور تھا لیکن بعد میں‘ جیسے جیسے اْمت کا زوال زور پکڑتا گیا‘ اس کے ہاتھ سے دنیا کی قیادت نکلتی چلی گئی‘ اور ساتھ ہی مسجد کے ہاتھ سے اْمت کی قیادت بھی نکل گئی۔
ضروری ہے کہ مسجد کے ائمہ کو وہی مقام حاصل ہو جو مقام ان کا حق ہے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ مسجد کے ائمہ اپنے آپ کو اس منصب اور مقام کو سنبھالنے کا اہل بنائیں۔ اس کے بغیر اْمت کی اجتماعی زندگی کا احیا اور اس کو درپیش چیلنج کا مقابلہ ممکن نہیں۔
اس وقت اْمت کے اتنی بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود‘ ذلت و مسکنت ہمارا مقدر ہے۔ ہم پر غیراقوام کا غلبہ ہے۔ دنیا کی قومیں مسلمانوں پر ٹوٹ پڑی ہیں۔ اس وقت مسلمان اپنی زندگی کے ایک انتہائی خطرناک دور سے گزر رہے ہیں۔ لیکن جہاں خطرات ہیں وہیں امکانات بھی موجود ہیں۔ آج اْمت کو اتنا بڑا خطرہ درپیش ہے کہ تاریخ میں کبھی اس کی مثال نہیں ملتی۔ غالب تہذیب نے جس طرح مسلمانوں کو اپنا حریف اور نشانہ بنالیا ہے‘ اس کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ صرف تقاریر‘ قراردادوں اور ان کی سازشوں کو بے نقاب کرنے سے بات نہیں بنے گی۔ ان خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے ائمہ کرام کو اپنا حقیقی کردار ادا کرنا ہوگا۔ اپنا مقام و منصب پہچاننا ہوگا۔ یہ ناگزیر ہے کہ مسجد کے ائمہ اس بات کے اہل ہوں کہ وہ وہی مقام سنبھال سکیں‘ اْمت کی رہنمائی کر سکیں‘ اور مسجد کا اْمت کی زندگی میں وہی مقام ہو جو نبی اکرمؐ نے مسجد کو مدینہ کی اجتماعی زندگی میں دیا تھا۔
آج اْمت تاریخ کے انتہائی نازک موڑ پر کھڑی ہے اور اسے سنگین نوعیت کے خطرات لاحق ہیں‘ لیکن انھی خطرات میں روشن مستقبل پوشیدہ ہے۔ ہمارے لیے دنیا کی قیادت کے کھلے امکانات موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دشمن ہمارے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ دنیا کی ابلیسی تہذیب کے مستقبل کو اصل خطرہ مسلمان سے ہے۔ اس حقیقت کی نشان دہی علامہ اقبال نے ابلیس کی زبان سے کی تھی۔ مغرب کو نہ اشتراکیت سے خطرہ ہے نہ مزدکیت سے‘ اصل خطرہ اسلام سے ہے۔ اسلام ہی میں یہ قوت و صلاحیت پائی جاتی ہے کہ وہ اس کے مقابلے میں اٹھ کھڑا ہو اور اس کو چیلنج کرے۔
اْمت کی ہیئت ترکیبی کے اندر یہ خاصیت پوشیدہ ہے۔ رب العالمین کی طرف سے اعلان کیا گیا ہے: اْخرجت للناس، یہ تمام انسانوں کے لیے برپا کی گئی ہے۔ نبی اکرمؐ تمام انسانوں کے لیے نبی بناکر بھیجے گئے تھے اور اْمت کو قیامت تک یہی مشن سونپا گیا: ’’ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’امت وسط‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو‘‘۔ (البقرہ: 143) اْمت کا شعار یہ بتایا گیا: ’’اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے‘‘۔ (الحج: 78) قرآن نے رہنمائی کر دی ہے کہ یہ اْمت کس لیے وجود میں آئی ہے۔ یہ اْمت معاشی مفادات کے لیے‘ سیاست گری کے لیے یا دنیا میں محض ناموری کے لیے نہیں‘ بلکہ تمام انسانیت کو اللہ کی بندگی میں داخل کرنے کے لیے برپا کی گئی ہے۔ اس اْمت نے جب اپنے منصب کو پہچانا تو صرف 30 سال کے اندر دنیا میں ایک عظیم انقلاب برپا کرکے رکھ دیا۔
اْس وقت مسلمان بے سروسامان تھے لیکن ان کے پاس ایمان تھا‘ یقین تھا‘ وحدت تھی۔ صرف 30 سال کے اندر‘ ایران و روم اور صرف 100 سال کے اندر اندر وہ اسپین کے غاروں اور چین کے ساحل تک پہنچ گئے۔ دنیا ورفعنالک ذکرک کی عملی صورت اپنی نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔
لیکن یہ سب کچھ خود بخود نہیں ہوگیا۔ اس کے کچھ تقاضے تھے جو پورے کیے گئے۔ آج درپیش چیلنجوں سے نمٹنے اور امکانات سے فائدہ اٹھانے کی بھی یہی صورت ہے کہ اْمت اپنے فرائض کو کماحقہ انجام دے اور اس کے لیے کمر کس لے۔
ائمہ کی ذمہ داریاں
اس کام میں مرکزی اہمیت ائمہ کرام کو حاصل ہے۔ آپ کو صرف نماز کا امام نہیں‘ بلکہ معاشرے کا امام و لیڈر بننا ہے اور معاشرے کو محمد عربیؐ کے راستے پر چلانا ہے ؎
بمصطفیٰؐ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نرسیدی تمام بولہبی است
اس کے لیے آپ کو‘ اپنے آپ کو تیار کرنا ہے۔ مسجد کو اْمت کی اجتماعی زندگی کی تعلیم گاہ بنانا ہے۔ اپنے اندر یہ اہلیت پیدا کرنا ہے کہ اس مقام پر بیٹھ کر اْمت کی رہنمائی کا فریضہ انجام دے سکیں۔
معاشرے میں اس وقت مسجد کے حقیقی مقام و مرتبے کی حیثیت بہت کمزور ہے‘ اور امام عملاً اس قدر بے بس ہے کہ اسے (متولی کی اجازت کے بغیر) نماز کا وقت متعین کرنے کا بھی اختیار نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ آپ‘ ائمہ کے اندر بے پناہ قوت ہے۔ اگر آپ کے پاس اہلیت اور صلاحیت ہو تو معاشرے میں انقلاب برپا ہو سکتا ہے‘ مگر ہم ان صلاحیتوں اور امکانات سے آگاہ نہیں۔ عرب کے ریگستان میں پلنے والے لوگوں کے اندر یقین اور ایمان کی کیفیت پیدا ہوئی تو نتیجہ یہ نکلا کہ بہترین جرنیل پیدا ہوگئے۔ ان کو تاریخ کے چیلنجوں کا ادراک تھا۔ ان سے نبٹنے کی صلاحیتوں کا شعور تھا۔ انھوں نے دنیا میں عظیم فتوحات کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ایک بڑی دنیا نے ان کے پیغام کو قبول کیا اور تاریخ کا دھارا موڑ کر رکھ دیا۔آپ کو اس کا ادراک کرنا ہے کہ آپ کا مقام کیا ہے؟ منصب کیا ہے؟ اگر مسجد کو مرکز بننا ہے‘ اور آپ کو اس مرکز میں دعوت و ارشاد اور قیادت کا وہ کام انجام دینا ہے‘ تو آپ کے سامنے ایک ہی روشنی کا مینارہ ہے اور وہ ہیں مسجد نبوی کے امام نبی اکرمؐ۔ آپؐ کا اخلاق‘ شہرت‘ کردار‘ اخلاص‘ دلسوزی… اس کے بغیر یہ عظیم کام انجام نہیں پاسکتا ہے۔