مزید خبریں

حکومت مجرمانہ غفلت کرنے والوں کیخلاف کارروائی کرے ، جاوید قصوری

لاہور(وقائع نگار خصوصی ) امیر جماعت اسلامی پنجاب وسطی محمد جاوید قصوری نے لسبیلہ بس حا دثے میں قیمتی جانوں کے ضیاع اور کوہاٹ میں کشتی الٹنے سے معصوم بچوں کی ہلاکت پر افسوس اور مرحومین کے لواحقین کے ساتھ اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پوری قوم لواحقین کے غم میں برابر ی شریک ہے۔ملک میں پہلے بھی حادثات رونما ہوتے رہے ہیں مگر کبھی کسی ذمے دار کے خلاف تادیبی کارروائی نہیں ہوئی۔ ملک میں ٹریفک حادثات معمول بن چکے ہیں۔پاکستان میں ایسے لوگوں کی تعداد 95 فیصد ہے جو بغیر لائسنس کے گاڑی چلاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں سالانہ 35 ہزار لوگ ایکسیڈنٹ میں جاں بحق ہوجاتے ہیں، جبکہ 50 ہزار سے زائد افراد زخمی اور عمر بھر کی معذوری سے دوچار ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ہر پانچ منٹ کے بعد ٹریفک حادثہ پیش آتا ہے، جس میں کوئی نہ کوئی شخص زخمی یا جاں بحق ہوجاتا ہے۔سال 2022ء پنجاب میں ٹریفک حادثات میں 3 ہزار 800 سے زائد افراد جاں بحق جبکہ 3 لاکھ 90 ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے۔انہوں نے کہا کہ ریسکیو 1122 کے سرکاری اعدادو شمار کے مطابق سال 2022ء میں صوبہ پنجاب میں ہونے والے 3 لاکھ 63 ہزار 813 حادثات میں 3 ہزار 858 افراد جاں بحق جبکہ 3 لاکھ 90 ہزار 434 افراد زخمی ہوئے۔12 ہزار 115 کم عمر ڈرائیور جبکہ 68 ہزار 583 حادثات تیز رفتاری کے باعث پیش آئے جبکہ سر فہرست 3 لاکھ 15 ہزار 789 حادثات موٹرسائیکل کے ہوئے، ہیلمٹ کا استعمال نہ کرنے سے 27 ہزار 940 موٹرسائیکل سوار ہیڈ انجریز کا شکار ہوئے۔شہر لاہور میں سال 2022ء میں ہونے والے 91 ہزار 301 ٹریفک حادثات میں 476 افراد جاں بحق جبکہ 95ہزار 330افراد زخمی ہوئے ۔انہوں نے کہا کہ بد قسمتی سے پاکستان کو ہر سال ٹریفک حادثات کی وجہ سے تقریباً 9 ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے،یہ رقم حادثے کے بعد گاڑیوں کی مرمت، زخمیوں کے طبی علاج، گاڑیوں کی مروج قیمت اور حادثات کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کے ازالے پر خرچ کی جاتی ہے۔ محمد جاوید قصوری نے اس حوالے سے مزید کہا کہ پاکستان میں ٹریفک قوانین کے جو آرڈیننس موجود ہیں ان میں سے قومی وہیکل آرڈیننس 2000، موٹر وہیکل آرڈیننس 1965 اور موٹر وہیکل آرڈیننس 1969 شامل ہیں۔ یہ آرڈیننس ملک میں ٹریفک کا نظام منظم کرنے کیلیے بنائے گئے تھے جو اب بہت پرانے ہوچکے ہیں۔ پاکستان کے بڑے شہروں میں 84 فیصد سڑکیں ایسی ہیں جہاں پر زیبرا کراسنگ، پل اور فٹ پاتھ سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے پیدل چلنے والے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر سڑک پار کرتے ہیں۔ پاکستان میں گاڑیوں کی تعداد میں 1.5 لاکھ تک اضافہ ہوچکا ہے جبکہ 2030ء تک ان گاڑیوں کی تعداد 18 لاکھ تک پہنچ جانے کا خدشہ ہے۔اگر اس کے حوالے سے حکومت نے مؤثر حکمت عملی اختیار نہ کی گی تو حادثات میں تشو یشناک حد تک اضافے کا خدشہ ہے۔