مزید خبریں

گھر میں والد کا رویّہ

قرآن کریم نے تمام امور میں مشورہ کرنے کا حکم دیا ہے، چنانچہ ’وشاورھم فی الامر‘ اور ’وامرھم شوریٰ بینھم‘ کے واضح الفاظ سے نہ صرف حکومت کے ذمے داروں‘ اداروںکے سربراہان بلکہ خاندان کے سربراہ کو بھی یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہر اہم معاملے میں مشورہ کیا جائے۔ اگر ایک ماں روزانہ کھانے کے وقت بچوں سے یہ پوچھتی ہے کہ کل کیا پکوایا جائے تو ایک باپ بھی یہ مشورہ کر سکتا ہے کہ گھر کی تعمیر‘ کسی چیز کی خرید و فروخت‘ کسی کاروباری مشکل‘ کسی کا رشتہ‘ غرض تمام خاندانی امور میں دوسروں کی رائے کیا ہے۔ اسلام کا مدّعا آغاز سے یہی تھا کہ گھر کے اندر شوریٰ ہو تاکہ یہ شوریٰ طرزِ حیات کا جزو بن جائے اور گھر کے باہر کے معاملات میں بھی اس پر عادتاً عمل کیا جانے لگے۔ والدین کا اولاد سے کوئی مشورہ نہ کرنا‘ ایک غلط حکمت عملی ہے۔ ہمیں اس کی اصلاح کرنی چاہیے۔ یہ ایک معروف بات ہے کہ شادی بیاہ کے معاملے میں لازمی طور پر مشورے کے بعد ہی فیصلہ کیا جانا چاہیے۔
والد سے خائف ہو کر بات نہ کرنا اور اجنبیوں کی طرح ان سے رویہ بنا لینا اسلامی تصورِ خاندان کے منافی ہے۔ اس شرم و حیا کے ساتھ‘ جو ایک لڑکی اپنے باپ سے رکھتی ہے‘ اس کا کھل کر بلاتکلف باپ سے بات کرنا اور بہت سے معاملات میں اپنے اختلاف کا اظہار کرنا اس کا اسلامی فریضہ ہے۔ امر بالمعروف کا حکم تنہا کسی فریق کے لیے نہیں بلکہ ہر فریق معاملہ کے لیے ہے۔ بیوی کی طرف سے شوہر کے لیے اور شوہر کی طرف سے بیوی کے لیے اس کا کرنا فریضہ ہے۔ اسی طرح اولاد اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔
جس طرح والدین پر اولاد کو نصیحت کرنا فرض ہے‘ ایسے ہی اولاد پر والدین کو مشورہ دینا‘ انھیں مختلف امور پر متوجہ کرنا فرض کر دیا گیا ہے۔ باپ کے لیے خصوصی طور پر اپنی لڑکیوں کے حوالے سے‘ احادیث میں جو اشارے اور تعلیمات ملتی ہیں وہ ہمارے لیے بہت قابلِ غور ہیں۔
ایک حدیث میں صادق و امینؐ فرماتے ہیں کہ جس شخص نے اپنی دو لڑکیوں کی تربیت اچھی طرح کی اور وہ بلوغ کو پہنچ گئیں‘ یعنی اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کے قابل ہوگئیں تو قیامت میں وہ شخص اور نبی کریمؐ اتنے قریب اور ساتھ ہوں گے جیسے ہاتھ کی دو انگلیاں۔ گویا ایک باپ اپنی لڑکیوں سے محبت‘ نرمی‘ بھلائی اور ان کی صحیح اسلامی تربیت کر کے نبی کریمؐ سے جنت کا وعدہ لے سکتا ہے اور لڑکیاں ذریعۂ نجات بن سکتی ہیں۔ ظاہر ہے یہ کام باپ اور بیٹی کے درمیان حجابات کی دیواریں کھڑی کر کے نہیں ہوسکتا بلکہ ان دیواروں کو منہدم کرکے باہمی اعتماد اور ہمت افزائی سے ہی ہو سکتا ہے۔
اگر آپ کے والد آپ سے بات کرنا پسند نہیں کرتے تو آپ کو اپنے آپ کو خود اپنے والد سے بات کرنے پر آمادہ کرنا چاہیے۔ آپ کا خوف بے بنیاد ہے۔ اسے بغیر کسی تاخیر کے ذہن سے نکال کر اللہ پر اعتماد کرتے ہوئے ان سے احترام و محبت کے ساتھ بات کیجیے تاکہ یہ برف پگھلے اور آپ کی صحیح شخصیت آپ کے والد کے علم میں بھی آسکے۔
آپ کے والد کے اس رویے کا تعلق ممکن ہے کہ خود آپ کی والدہ کا ایک روایتی گھریلو خاتون کی طرح شوہر کی اندھی اطاعت سے بھی ہو۔ انھوں نے گھریلو معاملات میںآپ کے والد کی ہر بات کو مشورہ اور تبادلۂ خیالات کے بغیر مان لینے کا رویہ رکھا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کے والد خود کو ایک مطلق العنان بادشاہ کی طرح گھر پر حاکم سمجھتے ہوں اور محض نان نفقہ فراہم کر دینے کے بعد ایک آمر کی طرح ہر بات پر اصرار کرنے کے عادی ہوں‘ اور اس بنا پر آپ سے کسی بات میں مشورہ لینے کی ضرورت نہ سمجھتے ہوں۔ لیکن اگر وہ اپنی بیٹی کو تو نظرانداز کریں اور بیٹوں کو اہمیت دیں تو یہ رویہ بھی اسلام کے منافی ہے۔ اولاد میں تفریق اور خصوصی طور پر جنس کی بنیاد پر تفریق‘ اسلام کے منافی ہے۔ آپ کو علم ہے کہ نبی کریمؐ اپنی صاحبزادی سیدہ فاطمہؓ کا کتنا خیال کرتے تھے اور جب وہ آتی تھیں تو ان کے لیے اْٹھ کرکھڑے ہو جاتے اور پیشانی کو بوسہ دیتے تھے۔ ہمارے لیے دلیل اگر کوئی ہے تو وہ کتاب و سنت ہی سے ہے۔ اس لیے سیدہ فاطمہؓ کا اپنے والد سے جا کر ملازم کا مطالبہ کرنا‘ یہ ثابت کر دیتا ہے کہ بلاکسی خوف کے انھوں نے اپنا حق طلب کیا۔ یہی شکل آپ کو اختیارکرنی چاہیے۔
اسلام بے جا قسم کے حجابات اور تکلفات کو پسند نہیں کرتا۔ اللہ پر اعتماد کرتے ہوئے اور سنت پر عمل کرتے ہوئے آپ کو اپنے والد سے براہِ راست بات کرنی چاہیے اور انھیں اللہ کے خوف کے ساتھ اور اللہ کے رسولؐ سے محبت کے تقاضے کے طور پر‘ بغیر کسی برہمی کے‘ آج تک آپ کو نظرانداز کرنے کی غلطی کے اعتراف کے ساتھ آپ کے ساتھ محبت اور اعتماد کا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔
نبی کریمؐ باہر والوں کے ساتھ ہی نہیں‘ بلکہ گھرکے اندر انتہائی شفیق و رحیم تھے۔ آپ کے والد اگر چاہتے ہیں کہ قیامت میں اللہ کے رسولؐ سے قربت ملے تو انھیں خود اپنے رویے کی اصلاح کرنی چاہیے اور عفو ودرگزر سے کام لیتے ہوئے ماضی کو بھلا کر اپنی بیٹی اور بیٹوں کے ساتھ مودت و رحمت کا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ عظمت اور بڑائی اسی میں ہے۔ فاصلے پیدا کر کے مصنوعی طور پر اپنی بڑائی کے احساس میں مبتلا ہونے میں نہیں ہے۔