مزید خبریں

مودی سرکارکی آمریت میں لوک سبھا کے انتخابات

بھارت میں عام انتخابات کے لیے پہلے مرحلے میں ووٹنگ کا عمل مکمل ہو گیا ، جس میں رائے دہندگان نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس دوران مغربی بنگال اور منی پور میں تشدد کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ رپورٹ کے مطابق2019 ء کے مقابلے میں حالیہ انتخابات کے پہلے مرحلے کے دوران رائے دہندگان کی دلچسپی میں کمی نظر آئی۔ بھارت میں 7 مراحل میں انتخابات ہوں گے۔ جمعہ کے روز پہلے مرحلے میں 21 ریاستوں کے 102 حلقوں میں ووٹ ڈالے گئے۔

جن ریاستوں میں ووٹ ڈالے گئے ان میں اتر پردیش، تمل ناڈو، اتراکھنڈ، منی پور، میگھالیہ، آسام، مہاراشٹر، راجستھان، مغربی بنگال اور مقبوضہ جموں و کشمیر کے حلقے شامل ہیں۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا کی ویب سائٹ کے مطابق مجموعی طور پر 60 فیصد سے زائد پولنگ ہوئی۔ تاہم بھارت کے نشریاتی ادارے این ڈی ٹی وی اور انڈیا ٹوڈے سمیت بیشتر میڈیا اداروں نے دعویٰ کیا کہ ٹرن آؤٹ 62.37 فیصد رہا۔ اس سے قبل 2019 ء میں پہلے مرحلے میں 69.43 فیصد ووٹ ڈالے گئے تھے۔ بہار میں سب سے کم 48.5 فیصد پولنگ ہوئی۔

حالیہ انتخابات کے دوران ریاست تمل ناڈو میں 39 نشستوں کے لیے ہونے والی ووٹنگ میں 67.2 فیصد پولنگ ہوئی، جب کہ 2019 ء میں 72.4 فیصد ہوئی تھی۔ راجستھان میں 57.3 فیصد ہوئی، جب کہ 2019 ء میں 64 فیصد ہوئی تھی۔ رپورٹس کے مطابق سب سے زیادہ ووٹر ٹرن آؤٹ مغربی بنگال میں دیکھاگیاجو 77.6 فیصد رہا۔ شمال مشرق میں بی جے پی حکومت والی ریاستوں آسام میں 72.3، میگھالیہ میں 75.5، منی پور میں 62.9، اروناچل پردیش میں 67.6 اور تری پورا میں 80.6 فیصد پولنگ ہوئی۔ بھارتی الیکشن کمیشن کے مطابق ملک میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 97 کروڑ ہے۔ ایوانِ زیریں (لوک سبھا) کی کل نشستوں کی تعداد 543 ہے جن پر کامیاب ہونے والے ارکان 5سال کے لیے منتخب ہوں گے۔ لوک سبھا کے انتخابات میں 272 نشستیں جیتنے والی سیاسی جماعت نئی حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ مغربی بنگال میں برسراقتدار جماعت ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے کارکنوں میں چنداماری کے علاقے میں تصادم ہوا۔

سیکورٹی اہلکاروں نے مداخلت کرتے ہوئے دونوں جماعتوں کے حامیوں کو منتشر کر دیا۔ ٹی ایم سی نے الزام عائد کیا ہے کہ بی جے پی کے کارکنوں نے کوچ بہار ضلع کے سیتل کوچی میں ہنگامہ کیا اور ٹی ایم سی کے کارکنوں پر تشدد کیا ، ادھر ٹی سی ایم نے الیکشن کمیشن کو خط بھی لکھ دیا ہے۔ دوسری جانب بی جے پی نے الزام عائد کیا ہے کہ ٹی ایم سی کے کارکنوں نے ان کے ارکان اور پولنگ ایجنٹوں کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں ایک پولنگ بوتھ پر اس کا انچارج زخمی ہو گیا۔ ادھر کوچ بہار کے موضع دنہاٹا میں ایک بم بھی برآمد کیا گیا ہے۔ بی جے پی کا الزام ہے کہ ٹی ایم سی کے کارکنوں نے بی جے پی کے بوتھ انچارج پر بم پھینکا تھا۔ یاد رہے کہ بی جے پی ریاست میں اپنی پوزیشن کو مستحکم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ جب کہ ٹی ایم سی اس کی طاقت میں اضافے کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔ دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کے خلاف مقدمات درج کرا دیے ہیں۔

نسلی فسادات سے متاثر ریاست منی پور میں بھی تشدد کے واقعات کی اطلاعات ہیں۔ پولنگ کے دوران نامعلوم شرپسندوں نے تھامن پوکپی میں ایک پولنگ بوتھ کے قریب فائرنگ کی جب کہ ایک دوسرے مقام پر ایک پولنگ بوتھ پر تشدد کا واقعہ پیش آیا۔ ریاست چھتیس گڑھ میں بم دھماکے کے نتیجے میں ایک سیکورٹی اہلکار زخمی ہو گیا ۔تمل ناڈو، اروناچل پردیش، انڈمان نکوبار اور آسام میں بعض پولنگ اسٹیشنوں پر الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں میں خرابی کی بھی اطلاعات سامنے آئیں۔ منی پور کے امپھال ایسٹ اور امپھال ویسٹ میں کئی ووٹنگ مشینوں کو نقصان پہنچایا گیا ۔ ناگالینڈ میں ایک مقامی تنظیم’ایسٹرن ناگالینڈ پیپلز آرگنائزیشن‘ کی جانب سے عوامی ایمرجنسی اور انتخابات کے بائیکاٹ کی اپیل کے بعد 6اضلاع میں تقریباً صفر ووٹنگ ہوئی۔ یہ تنظیم مزید مالی خودمختاری کے ساتھ علاحدہ انتظامیہ کا مطالبہ کر رہی ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی مسلسل تیسری بار اقتدار میں آنے کی کوشش کر رہے ہیں اور انہوں نے اپنی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور حلیف جماعتوں کے اتحاد نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) کے لیے 400 سے زائد نشستوں پر کامیابی کا ہدف مقرر کیا ہے۔ اس کے مخالف اپوزیشن اتحاد انڈین نیشنل ڈویلپمنٹل انکلوسیو الائنس میں شامل جماعتیں اپنی کھوئی ہوئی سیاسی زمین کی تلاش اور بی جے پی کو اقتدار سے باہر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ واضح رہے کہ 2019 ء کے عام انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے لوک سبھا کی 303 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی جب کہ حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کانگریس صرف 52 نشستوں پر کامیاب ہو سکی تھی۔ اس بار ہونے والے لوک سبھا انتخابات کا دوسرا مرحلہ 26 اپریل کو شروع ہو گا۔ اسی طرح 7مئی، 13 مئی، 20 مئی، 25 مئی اور یکم جون کو بھی مختلف ریاستوں میں پولنگ ہو گی۔

بھارت کا الیکشن کمیشن 4جون کو انتخابی نتائج کا اعلان کرے گا۔ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی مسلسل تیسری بار وزارتِ عظمیٰ کے منصب کے حصول کی کوشش کر رہے ہیں ۔ ان کے مقابل حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کانگریس کا اہم چہرہ راہل گاندھی ہیں جو انتخابی میدان میں موجود ہیں۔ دونوں جماعتوں کی جانب سے جہاں اقتدار حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے کے خلاف ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں ، وہاں وہ حالات و واقعات کا فائدہ اٹھانے سے بھی دریغ نہیں کررہے۔ بی جے پی کے رہنما ؤں نے انتخابی ریلیوں میں مودی حکومت کے ترقیاتی منصوبوں کو خوب بڑھا چڑھا کر بیان کیا۔ اس کے علاوہ رام مندر، شہریت کے ترمیمی قانون سی اے اے، مقبوضہ جموں و کشمیر سے دفعہ 370 کے خاتمے اور دیگر مذہبی معاملات کو بھی انتہاپسندہندوؤں کو راغب کرنے کے لیے بھرپور استعمال کیا ۔

بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں تیسری بار برسر اقتدار آنے پر پورے ملک میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ، 2047 ء تک ملک کو ترقی یافتہ بنانے، ایک ملک ایک الیکشن اور نوجوانوں، خواتین، کسانوں اور پسماندہ طبقات کو با اختیار بنانے کا وعدہ کیا ہے۔ اس کے مقابل کانگریس نے اپنے انتخابی منشور میں جہاں نوجوان اور خواتین سمیت مختلف طبقات کی فلاح و بہبود کے لیے پروگراموں کا اعلان کیا ہے وہیں اس نے اقلیتوں اور کسانوں کی شکایات کو دور کرنے اور ان کے مطالبات کو اہمیت دی ہے۔ اس کے علاوہ احتجاجی کسانوں کے مطالبات کو عملی جامہ پہنانے کا بھی وعدہ کیا ہے، جو دوران اقتدار مودی سرکار کے لیے در سر بنے رہے۔
پہلے مرحلے کی پولنگ کا جائزہ لیا جائے تو مغربی اترپردیش کے کئی حلقے بھی اس میں شامل تھے، جہا ں کسان، جاٹ اور مسلمان خاصی تعداد میں ہیں۔ ریاست میں سب سے زیادہ 80 نشستیں ہیں۔ پہلے مرحلے میں جہاں پولنگ کی گئی، ان میں سہارنپور، کیرانہ، مظفر نگر، بجنور، نگینہ، مراد آباد، رام پور اور پیلی بھیت بھی شامل ہیں۔ ان حلقوں میں بی جے پی کے حوالے سے شدید ناراضی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض علاقوں میں بی جے پی کے امیدواروں کو داخل تک نہیں ہونے دیا گیا۔

وزیراعظم نریندر اس اعتبارسے بہت کامیاب ہیں کہ انہوں نے مذہبی کارڈ کھیل کر ہندوؤ ں کو انتہاپسند بناکر ہم نوا کرلیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندو شہری مہنگائی، بے روزگاری اور دیگر مسائل سے پریشان ہیں، لیکن جب وہ ووٹ دینے جاتے ہیں تو ان کے دل و دماغ پر انتہاپسندی اور مسلم دشمنی کا جادو سرچڑھ کر بولتا ہے اور وہ بی جے پی کو ووٹ دے دیتے ہیں۔

وزیر اعظم کے نعرے ’’ اب کی بار 400پار‘‘ کو عملی جامہ پہنانے میں سب سے زیادہ رکاوٹ جنوبی ریاستیں بن رہی ہیں۔ تمل ناڈو میں کل 39 نشستیں ہیں اور پہلے مرحلے میں ان تمام پر ووٹ ڈالے گئے ہیں۔ جنوب کی 5ریاستوں تمل ناڈو، کرناٹک، آندھرا پردیش، کیرالہ اور تلنگانہ میں ملک کی مجموعی آبادی کا 20 فی صد ہے۔ وہاں کل 131 نشستیں ہیں جن میں 2019 ء کے انتخابات میں بی جے پی کو صرف 30 پر کامیابی ملی تھی۔ تمل ناڈو، کیرالہ اور آندھرا پردیش میں اسے کوئی نشست نہیں مل سکی تھی۔ ان پانچوں ریاستوں میں اس وقت اپوزیشن جماعتوں کی حکومت ہے۔ مبصرین کے مطابق وہاں کے عوام مذہبی انتہاپسندی سے دور ہیں۔ لہٰذا وہاں رام مندر، سی اے اے اور یکساں سول کوڈ کا کوئی اثر نہیں ہے، بلکہ جنوب کی دیگر ریاستوں میں سی اے اے کے خلاف احتجاج تک ہوچکا ہے۔

بدقسمتی سے اپوزیشن کا اتحاد’انڈیا‘ بی جے پی سے عوامی ناراضی کا فائدہ اٹھانے میں ناکام ہے۔ ’انڈیا‘ اتحاد میں صرف 2جماعتیں قابل ذکر ہیں،جو کانگریس اور سماج وادی پارٹی ہیں۔ اپوزیشن کی دیگر جماعتوں میں کچھ بی جے پی کے ساتھ ہیں اور کچھ تنہا لڑ رہی ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق انتخابی نتائج سے متعلق کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا، تاہم آثار واقعات کے مدنظر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ نریندر مودی کی سربراہی میں انتہاپسندوں کا ٹولا اپوزیشن کے مقابلے میں کہیں زیادہ طاقت ور ہے اور بھارت میں ایک بار پھر مودی کی شکل میں شدت پسند ہندو جماعت کا برسراقتدار آنا بعید از قیاس نہیں ہے۔

حالیہ الیکشن میں اہم موضوع جو زیر بحث رہا ، وہ یہ ہے کہ مسلمان کس پارٹی کو ووٹ دینے جا رہے ہیں۔ حزبِ اختلاف نے مسلم ووٹوں کے حصول کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی ۔ گوکہ 2014 ء کے بعد سے مسلمانوں کے ووٹ غیر اہم ہو گئے اور اب مسلمانوں کا انتخابی رجحان نتائج پر اثرانداز نہیں ہوتا، تاہم بی جے پی اپنی تمام تر انتہاپسندی کے ساتھ اس محاذ پر بھی سرگرم نظر آئی ہے۔

لوک سبھا کی 543 نشستوں میں سے 65 ایسی ہیں جہاں مسلمانوں کی آبادی 30 سے 80 فی صد تک ہے۔ یہ حلقے اترپردیش، آسام، بہار، کیرالہ، جموں و کشمیر، مغربی بنگال اور تلنگانہ وغیرہ میں ہیں۔ جب کہ 35سے 40 نشستیں ایسی ہیں جن پر مسلمانوں کی قابل لحاظ آبادی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کی نظر مسلمانوں کے ووٹوں پر رہی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقلیتی شعبے کے مطابق ملک بھر میں مسلمانوں کے درمیان 23 ہزار پروگرام منعقد کر کے 50 لاکھ مسلمانوں سے رابطہ قائم کیا گیا ہے۔ جب کہ 18 لاکھ سے زیادہ مودی دوست بھی بنائے گئے ہیں۔اس دوران مسلمانوں کو مودی کے قریب لانے کے لیے ’نہ دوری ہے نہ کھائی ہے، مودی ہمارا بھائی ہے‘ کا نعرہ بھی لگایا گیا۔ طلاق ثلاثہ کو غیر قانونی قرار دینے کے حوالے سے مسلمان خواتین کو جھانسے میں لانے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے۔

مودی سرکار کے اقتدار کے ماضی اور مستقبل کے عزائم کا جائزہ لیا جائے تو حقیقت عیاں ہوجاتی ہے کہ بی جے پی کی کوشش مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنا ہرگزنہیں ، بلکہ ان کو منقسم اور منتشر کرنے کی سازش ہے۔ جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں وہاں بی جے پی پہلے بھی فرضی امیدوار کھڑے کرکے مسلم ووٹوں کو بے اثر کرتی رہی ہے۔ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ بی جے پی کی حکومت میں کوئی مسلمان وزیر نہیں ہے، کیوںکہ وہ اپنی انتہاپسندانہ سوچ کے آگے کسی مسلمان کو نمایندہ نہیں بناسکتی۔