مزید خبریں

اقوام متحدہ،مبصر نے اسرائیل کو جنگی جرم کا مرتکب قرار دیدیا

لندن/غزہ /بگوٹا/انقرہ/تہران/قاہرہ (مانیٹرنگ ڈیسک+اے پی پی +آن لائن+صباح نیوز) برطانوی میڈیا نے اسرائیلی فوجی کے ہاتھوں فلسطینی بچے کے قتل پر تحقیقاتی رپورٹ مرتب کی جس کا جائزہ لینے کے بعد اقوام متحدہ مبصر نے اسرائیل کو جنگی جرم کا مرتکب قرار دے دیا۔برطانیہ کے سرکاری خبررساں ادارے بی بی سی کے مطابق 29 نومبر 2023ء کو مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی فوجیوں نے فائرنگ کرکے 2 بچوں 15 سالہ باسل اور 8 سالہ آدم کو شہید کردیا تھا۔بی بی سی نے اس واقعے کے تناظر میں مغربی کنارے میں اسرائیلی سیکورٹی فورسز کے طرز عمل کی انکوائری کی، جس میں موبائل فون اور سی سی ٹی وی فوٹیج، اسرائیلی فوج کی نقل و حرکت کی معلومات جمع کی گئیں، گواہوں کے بیانات لیے گئے اور جائے وقوعہ کی تفصیلی تحقیقات کی گئیں جس میں پیمائش تک شامل تھی، ان سب معلومات سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے شواہد ملے ہیں۔بی بی سی کو ملنے والے شواہد کا جائزہ لینے کے بعد اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے برائے انسانی حقوق اور انسداد دہشت گردی بین ساؤل یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ آدم کی موت ایک ’’جنگی جرم‘‘ نظر آتی ہے۔ایک اور قانونی ماہر ڈاکٹر لارنس ہل کاوتھورن نے اس واقعے کو اسرائیل کی جانب سے ہلاکت خیز طاقت کا ‘‘اندھا دھند’’ استعمال قرار دیا۔7 اکتوبر کے بعد سے مغربی کنارے کے حالات مزید خراب ہوگئے ہیں۔ بی بی سی کو ایسے شواہد بھی ملے ہیں کہ فلسطینیوں کے گھروں پر حملے کیے جارہے ہیں، انہیں دھمکایا جارہا ہے اور فلسطین سے اردن ہجرت کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جارہا ہے۔29 نومبر کی وڈیو فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ باسل اور آدم سمیت کچھ بچے ایک بند دکان کے پاس کھڑے ہیں تو اچانک وہاں سے گزرنے والے اسرائیلی فوجی قافلہ کا رخ ان بچوں کی طرف ہوتا ہے، بچے ڈر کر وہاں سے بھاگنے لگتے ہیں تو اچانک ایک اسرائیلی فوجی اپنی بکتر بند گاڑی کا دروازہ کھول کر بچوں پر برسٹ کھول دیتا ہے، جس میں دونوں بچے شہید ہوجاتے ہیں۔ 11 گولیاں چلائی جاتی ہیں۔بی بی سی کے مطابق میڈیکل رپورٹس میں بتایا گیا کہ باسل کے سینے میں 2 گولیاں لگیں جبکہ 8 سالہ آدم کے سر کے پچھلے حصے میں ایک گولی لگی۔بی بی سی نے جائے وقوعہ کی اپنی تحقیقات کے شواہد کو متعدد آزاد ماہرین کے ساتھ شیئر کیا جن میں انسانی حقوق کے وکلا، جنگی جرائم کے تفتیش کار اور انسداد دہشت گردی کے ماہرین ، اقوام متحدہ اور دیگر غیر جانبدار اداروں کے ارکان بھی شامل تھے۔تمام ماہرین نے اس واقعے کی تحقیقات کرانے پر اتفاق کیا اور کہا کہ اس واقعے میں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی نظرآتی ہے۔علاوہ ازیں اسرائیلی بمباری سے 24 گھنٹے میں مزید 33 فلسطینی شہید ہوگئے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق ایک طرف غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے مذاکرات گھسٹتے ہوئے انداز سے جاری ہیں اور دوسری طرف اسرائیلی فوجی غزہ کے مختلف علاقوں میں فلسطینیوں کو نشانہ بنانے سے باز نہیں آرہی۔ 24 گھنٹوں کے دوران مزید 33 فلسطینی شہید ہوگئے۔فلسطین کی بڑی مزاحمتی تنظیم حماس کے رہنما سہیل الہندی نے کہا ہے کہ اسرائیل کی جنگ بندی کی تجاویز کا جواب ایک دو روز میں دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ قاہرہ میں جنگ بندی مذاکرات میں کوئی پیش رفت نظر نہیں آئی۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق سہیل الہندی کا کہنا تھا کہ ہمارا مقصد جنگ ختم کرنا ہے، اسرائیل رفاح پر حملے کی تیاری کررہا ہے۔انہوں نے کہا کہ فلسطینی قیدیوں کے عوض 40اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کا منصوبہ زیر غور ہے، اسرائیل کی تجویز میں عارضی جنگ بندی اور قیدیوں کا تبادلہ شامل ہے۔عرب میڈیا کے مطابق غزہ سے اسرائیلی فوج کا انخلا جنگ بندی معاہدے میں بڑی رکاوٹ ہے۔ادھر جنوبی امریکی ملک کولمبیا نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کردیا ہے ۔ کولمبیا کے صدر گستاو پیٹرو نے غزہ میں جاری اسرائیلی فوج کے تشدد کی مذمت کرتے ہوئے اسے غزہ میں مقیم پوری قوم کا خاتمہ اور اسرائیلی قیادت کو نسل کش قیادت قرار دیا ہے۔انہوں نے مارچ میں سلامتی کونسل میں پیش کی گئی قرار جس میں غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا تھا ،کی ناکامی کی صورت میں اسرائیل کے ساتھ اپنے ملک کے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کیا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ وہ اب 2مئی سے اس اعلان پر عملدرآمد کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے نتیجہ میں فلسطینیوں کے بچے مارے گئے اور ان کے جسم بموں سے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت اسرائیل پوری دنیا کی آنکھوں کے سامنے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کررہا ہے اور وقت کا پہیہ پیچھے گھما کر اس عمل کو ختم نہیں کیا جاسکتا ۔ انہوں نے مزید کہا کہ فلسطین کی موت انسانیت کی موت ہو گی۔ اسرائیلی وزیر خارجہ اسرائیل کاٹز نے کولمبیا کے صدر کو نفرت سے بھرا ہوا اور یہود مخالف شخص قرار دیا۔ واضح رہے کہ اس سے قبل برازیل، چلی، بولیویا، ہنڈوراس، بیلیز، چاڈ، اردن، بحرین، ترکی اور جنوبی افریقہ غزہ میں جارحیت کے ارتکاب کے خلاف احتجاجا ً اسرائیل سے اپنے سفیروں کو واپس بلاچکے ہیں جبکہ ان میں سے بعض ممالک اسرائیل سے اپنے سفارتی تعلقات مکمل طور پر منقطع کر چکے ہیں۔دریں اثناء غزہ میں جنگ بندی نہ ہونے پر ترکیہ نے اسرائیل سے تمام تجارتی تعلقات منقطع کر دیے ہیں جب کہ فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں فریق بننے کا بھی فیصلہ کرلیا ہے۔امریکی نشریاتی ادارے بلومبرگ کے مطابق ترک ذرائع کا کہنا ہے کہ ترکیہ نے اسرائیل سے ہر قسم کی درآمدات اور برآمدات پر پابندی لگادی ہے ۔خیال رہے کہ گزشتہ ماہ ترکیہ نے غزہ میں جنگ بندی کے اعلان تک اسرائیل کو بعض مصنوعات برآمد کرنے پر پابندی عائد کردی تھی۔ترکیہ کے شماریاتی ادارے کے مطابق 2023ء میں دونوں ممالک کے درمیان تجارت 6.8 بلین ڈالر تھی جس میں سے 76 فیصد ترکیہ کی برآمدات تھیں۔ترکیہ کی جانب سے تجارتی تعلقات منقطع کرنے پر اسرائیلی وزیر خارجہ اسرائیل کاٹز کا کہنا ہے کہ ترک صدر اردوان تمام معاہدے توڑ رہے ہیں، یہ ایک آمر کا طرز عمل ہے جو بین الاقوامی تجارتی معاہدوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ترک عوام اور کاروباری برادری کے مفادات کو پامال کرتا ہے۔ دوسری جانب برطانوی عدالت میں پولیس افسر محمد عادل نے واٹس اپ پر حماس کی حمایت پر مشتمل پیغام شیئر کرنے کا اعتراف کرلیا جس پر انہیں 4 جون کو قید کی سزا سنائی جائے گی۔برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق 7 اکتوبر کو حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا تھا جس میں 1500 کے قریب اسرائیلی مارے گئے تھے جب کہ 250 کو یرغمال بناکر غزہ لایا گیا تھا۔جس پر برطانوی پولیس افسر محمد عادل نے واٹس اپ پر حماس کی حمایت کا میسیج ایک ہزار سے زائد لوگوں کو شیئر کیا تھا کہ ’آج فلسطینی عوام کے لیے اٹھنے، اپنی صفیں درست کرنے اور ایک آزاد فلسطینی ریاست قائم کا وقت ہے۔‘‘عادل نے حماس مجاہدینکی تصاویر بھی شیئر کی تھیں جس پر 2 پولیس افسران نے اپنے ڈپارٹمنٹ میں عادل کی شکایت کردی تھی۔خیال رہے کہ برطانیہ میں حماس کو دہشت گرد جماعت قرار دے کر پابندی عاید کی جاچکی ہے اور حماس کی حمایت اور ترویج قابل گرفت جرم ہے۔پولیس نے عادل کو دہشت گردی ایکٹ کی خلاف ورزی پر گرفتار کرلیا تھا اور جمعرات کو عدالت میں محمد عادل نے حماس کی حمایت کا اعتراف کرلیا۔جج نے محمد عادل کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ اچھے کردار کے حامل ہیں لیکن یہ غلطی قابل گرفت جرم ہے۔ 4 جون کو آپ کو سزا سنائی جائے گی جو چند سال قید ہوسکتی ہے۔عدالت نے فی الحال محمد عادل کو ضمانت پر رہا کردیا لیکن ان کی قسمت کا فیصلہ 4 جون کو ہوگا جب کہ وہ نوکری سے بھی معطل ہیں۔دوسری طرف فلسطینیوں کے خلاف جنگ میں اسرائیل کی حمایت پر ایران نے امریکی اور برطانوی حکام اور اداروں پر پابندیاں عاید کردیں۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ایرانی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں امریکی و برطانوی حکام اور اداروں پر پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا گیا۔ایران نے جن 7اعلیٰ امریکی حکام پر پابندیاں نافذ کی ہیں ان میں اسپیشل آپریشنز کمانڈ کے کمانڈر جنرل برائن فینٹون اور امریکی بحریہ کے پانچویں بیڑے کے سابق کمانڈر وائس ایڈمرل براڈ کوپر بھی شامل ہیں۔ جو برطانوی حکام اور ادارے ایرانی پابندیوں کی زد میں آئیں گے ان میں سیکریٹری دفاع گرانٹ شاپس، برطانوی فوج کی اسٹریٹجک کمانڈر کے سربراہ جیمز ہاکن ہل اور بحیرہ احمر میں موجود برطانوی رائل نیوی شامل ہے۔اس کے علاوہ ایران نے امریکی کمپنیوں لاک ہیڈ مارٹن اور شیورون اور برطانوی کمپنیوں ایلبیٹ سسٹمز، پارکر میگیٹ اور رافیل یوکے پر جرمانے عاید کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ایرانی وزارت خارجہ کے مطابق پابندیوں میں ایران کے مالیاتی اور بینکاری نظام سے منسلک کھاتوں ( اکاؤنٹس) اور رقوم کے لین دین پر پابندی، اسلامی جمہویہ ایران کی حدود میں ا?نے والے ( امریکی و برطانوی ) اثاثوں کو قبضے میں لینا اور ایران میں داخلے کے لیے ویزا کا عدم اجرا شامل ہیں تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ ایران کی عاید کردہ پابندیاںامریکیوبرطانوی حکام یا اداروں، اثاثوں اور ایران کے ساتھ معاملات پر کس طرح اثرانداز ہوں گی۔واضح رہے کہ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق 7 اکتوبر سے لے کر اب تک غزہ میں اسرائیل کی وحشیانہ بمباری اور زمینی فوجی کارروائی میں 34568فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔مزید برآں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو پر واضح کردیا ہے امریکا رفح میں اسرائیل کے زمینی آپریشن کی حمایت نہیں کرے گا۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق دونوں رہنماں کے درمیان ملاقات میں غزہ جنگ بندی اور امداد کی ترسیل پر تبادلہ خیال کیا گیا۔دوران ملاقات انٹونی بلنکن نے کہا کہ رفح میں آپریشن بہت بڑے سانحہ کا باعث بنے گا، حماس کے چیلنج سے نمٹنے کے اور بھی طریقے ہیں۔ترجمان اسرائیلی حکومت کا کہنا تھا کہ ہم نے امریکا پر واضح کردیا ہے کہ رفح میں آپریشن ضرور ہوگا، ہم مکمل جنگ بندی والے معاہدے کو قبول نہیں کریں گے،اسرائیل نے امریکی وزیر خارجہ سے رفح میں آپریشن کے منصوبے شیئر کردیے ہیں ۔ ادھر فلسطینی عوام کی حمایت میں امریکا کی کولمبیا یونیورسٹی سے شروع ہونے والے مظاہروں کا سلسلہ برطانیہ، فرانس،ایران ، بھارت اور کئی دوسرے ملکوں تک پھیل گیا ہے۔فلسطینی عوام کی حمایت میں امریکی یونیورسٹیوں میں احتجاج کے دوران گرفتار ہونے والے طلبہ و طالبات کی تعداد1600 ہو گئی ہے ۔ امریکہ کی کولمبیا یونیورسٹی ، نیویارک یونیورسٹی کے بعد نیو کاسل،برسٹل، واروک، لِیڈز، شیفیلڈ اور شیفیلڈ ہالم کے یونیورسٹی طلبہ نے کھلے کیمپسوں میں خیمے گاڑ کر فلسطین کی حمایت میں مظاہرہ کیا ۔ طلبہ اور احتجاجی ملازمین نے مطالبہ کیا کہ اسرائیل کو اسلحہ بیچنے والی کمپنیاں اس تعاون کو ختم کریں۔ یاد رہے کہ امریکا بھر میں 50 سے زائد جامعات کے طلبہ فلسطین کی حمایت میں مظاہرے کر رہے ہیں جس پر گزشتہ 2 ہفتوں میں پولیس نے طلبہ و اساتذہ سمیت 1600سے زاید افراد کو گرفتار کیا ہے۔امریکی جامعات میں جاری احتجاجی مظاہروں پر امریکی صدر بائیڈن کا ردعمل سامنے آگیا۔ان کا کہنا ہے کہ کالج کیمپس مظاہروں میں آزادی اظہار اور قانون کی حکمرانی برقرار رہنی چاہیے، ہم آمرانہ قوم نہیں جہاں لوگوں کو خاموش کرایا جائے اور اختلاف کو دبایا جائے، ہمارا لاقانونیت والا ملک بھی نہیں ہے، ہم سول سوسائٹی ہیں جہاں امن و امان برقرار رہنا چاہیے۔امریکی صدر نے مزید کہا کہ ہم جامعات کے احتجاج سے مشرق وسطیٰ میں اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کے لیے مجبور نہیں ہوئے۔