مزید خبریں

خفیہ ایجنسیوں کی عدالتی امور میں مداخلت،چیف جسٹس کی زیر صدارت فل کورٹ اجلاس

اسلام آباد/کراچی/کوئٹہ/لاہور/پشاور (نمائندگان جسارت+اسٹاف رپورٹر)عدالتی امور میں خفیہ اداروں کی مداخلت کے الزامات پرچیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسی کی جانب سے طلب کیا گیا عدالت عظمیٰ کا فل کورٹ اجلاس 2 گھنٹے اور 12 منٹ تک جاری رہنے کے بعد ختم ہوگیا۔اس معاملے پرفل کورٹ اجلاس آج پھر ججز کمیٹی روم میں ہوگا۔واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6ججوں کی جانب سے عدالتی معاملات میں خفیہ اداروں
کی مداخلت کے الزامات کے بعد پاکستان کے چیف جسٹس فائز عیسی نے عدالت عظمیٰ کا فل کورٹ اجلاس طلب کیا تھا۔بدھ کی شام 4بجے طلب کیے جانے والے اجلاس میں سپریم کورٹ کے تمام جج شریک ہوئے۔جس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں کے خط اور اس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کا جائزہ لیا گیا ۔مذکورہ 6ججوں نے سپریم جوڈیشل کونسل سے مطالبہ کیا تھا کہ فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے نمائندوں کی عدالتی امور میں مسلسل مداخلت پر جوڈیشل کنونشن بلایا جائے۔فل کورٹ اجلاس میں شریک ججوں نے اپنی اپنی رائے کا اظہارکیا۔اسلام آباد ہائیکورٹ ججزکی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل کوخط لکھے جانے کے خط کے بعدوفاقی حکومت ایکشن میں آگئی۔اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان اور وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے ملاقات کی ہے جس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے خط کا معاملہ زیر غور آیا، ملاقات چیف جسٹس پاکستان کے چیمبر میں ہوئی۔ بعد ازاں اٹارنی جنرل نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ججز کے خط کا معاملہ سنجیدہ ہے، جس کی تحقیق ہونی چاہیے۔ علاوہ ازیں وزیر اعظم شہباز شریف آج چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ سے ملاقات کریں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اٹارنی جنرل نے وزیر اعظم کوچیف جسٹس پاکستان سے متوقع ملاقات کی تفصیلات سے آگاہ کردیا۔نجی ٹی وی کے مطابق متذکرہ ملاقات کے موقع پر وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ بھی وزیر اعظم کے ہمراہ ہوں گے اور یہ ملاقات جمعرات کو دوپہر 2 بجے عدالت عظمیٰ میں ہو گی۔ ذرائع نے بتایاہے کہ ہائی کورٹ ججزکے خط کے بعدصورتحال میں تیزی آتی جارہی ہے ایک طرف بارایسوسی ایشنزنے ہنگامی اجلاس منعقد کرکے ججزکے ساتھ اظہار یکجہتی کیاہے اس کے ساتھ پاکستان بار کونسل ،سپریم کورٹ بار سمیت دیگرباروں کے اہم اجلاس بھی بلائے گئے اور اعلامیے بھی جاری کیے گئے ہیں۔ملک بھر کی وکلا تنظیموں نے موقف اختیارکیا ہے کہ وکلا برادری کسی بھی ادارے کی دوسرے ادارے میں مداخلت کی بھرپورمذمت کرتی ہے ، معاملے کی شفاف تحقیقات کی جائے ۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے خط کے معاملے پر پاکستان بار کونسل نے بھی 5 اپریل کو ایگزیکٹو کمیٹی کا اہم اجلاس طلب کر لیا ہے، جس میں پاکستان بار کونسل موجودہ صورتحال پر آئندہ کے لائحہ عمل کا فیصلہ کرے گی۔اسلام آبادہائی کورٹ کے ججزکی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل کولکھے گئے خط کے بعدپیداہونے والی صورتحال پر سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن نے اعلامیہ جاری کرتے ہوئے کہاہے کہ سپریم کورٹ بار قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتی ہے اور ججز کے خط میں مذکور واقعے پر سخت ناپسندیدیگی کا اظہار کرتی ہے،عدلیہ اور ججوں کی نجی زندگی میں مداخلت کی نہ صرف مذمت ہونی چاہیے بلکہ اس کے خلاف کارروائی بھی ہونی چاہیے،سپریم کورٹ بار عدلیہ کی آزادی پر یقین رکھتی ہے اور عدلیہ کی آزادی کے خلاف کوئی ایکشن برداشت نہیں کرے گی۔صدرسپریم کورٹ بارایسوسی ایشن شہزادشوکت نے کہاکہ بار قانون کی حکمرانی پر سمجھوتہ نہیں کرے گی۔انہوں نے ججزکے ساتھ ہونے والے واقعات پر ناپسندیدگی کابھی اظہار کیاہے۔ انہوں نے ججزکویقین دلایاکہ بار ان کے ساتھ کھڑی ہے اور ان کے آئینی وقانونی حقوق کادفاع کرے گی۔علاوہ ازیں سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کا ہنگامی اجلاس بار نے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا مطالبہ کردیا ۔سندھ ہائیکورت بار کے جاری کیے گئے اعلامیہ میں کہاگیا ہے کہ اجلاس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کا چیف جسٹس آف پاکستان کو لکھے گئے خط کا جائزہ لیا گیا ،سندھ ہائیکورٹ بار اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے خط پر تحقیقات کے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا مطالبہ کردیا ،عدالت عظمیٰ کے تین ججز پر مشتمل جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے،سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کا عدالتی معاملات میں مداخلت پر تشویش کا اظہار،اداروں کے مداخلت عدلیہ کی غیر جانبداری اور عدالتی نظام پر ضرب لگانے کے مترادف ہے،اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کا مداخلت کا بے نقاب کرنا قابل تعریف عمل ہے۔دوسری جانب اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے 6 ججز کے خط کے معاملے ہر شفاف انکوائری کرانے کا مطالبہ کردیا۔ تفصیلات کے مطابق اسلام آبار ایسوسی ایشن کا ہنگامی اجلاس صدر ریاست علی آزاد کی زیر صدارت ہوا، جس میں اسلام آباد ہائیکورٹ بار نے چیف جسٹس سے 6 ججز کے خط کے معاملے ہر شفاف انکوائری کرانے کا مطالبہ کیا، اجلاس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا، اس حوالے سے جاری اعلامیہ میں کہا گیا کہ اسلام آباد بار ایسوسی ایشن عدلیہ کی آزادی اور خود مختاری کو آئین کا بنیادی وصف سمجھتی ہے۔اعلامیہ میں بار ایسوسی ایشن نے کہا ہے کہ نظام عدل و انصاف پر عوام الناس کا اعتماد عدلیہ کی آزادی اور خود مختاری سے وابستہ ہے، عدلیہ کی آزادی پر حرف نظام عدل و انصاف اور معاشرے کیلئے شدید نقصان دہ ہے، اسلام آباد بار ایسوسی ایشن آئین و قانون کی عملداری، عدلیہ کی آزادی اور خود مختاری کے اصولوں کے ساتھ کھڑی ہے، ججز کے پیشہ وارانہ امور کی آزادانہ ادائیگی کو یقینی بنایا جائے تاکہ آئین کے مطابق بنیادی حقوق کا تحفظ اور انصاف کی بلا تفریق فراہمی ممکن ہو سکے۔ لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے اسلام آباد کے چھ ججز کا سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھے جانے پر اعلامیہ جاری کیا، اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ہم اسلام آباد کے چھ ججز کو سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے ایجنسیز کی جانب سے عدلیہ میں مداخلت کیے جانے کے سچ کو بینقاب کیا ہم چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے اس اقدام کو قابل تعریف نہیں سمجھتے جنہوں نے اپنے ججز کی حفاظت کے لیے کسی قسم کے عملی اقدامات بروئے کار نہیں لائے ہم حساس اداروں کی جانب سے عدلیہ کے فیصلوں میں مداخلت اور اثر انداز ہونے کی پرزور مزمت کرتے ہیں۔اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ہم حساس اداروں کے اپنی مرضی کے فیصلے لکھوانے کے عدلیہ پر دباؤ کی سخت مزمت کرتے ہیں، ہم فی الفور ان حساس اداروں کی شخصیات کیخلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہیں جنہوں نے آئین اور قانون کو پامال کیا۔ بتایا گیا ہے کہ سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کا بھی ہنگامی اجلاس منعقد ہوا، جس کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اجلاس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کا چیف جسٹس آف پاکستان کو لکھے گیے خط کا جائزہ لیا گیا، سندھ ہائیکورٹ بار اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے خط پر تحقیقات کے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا مطالبہ کرتی ہے، سپریم کورٹ کے تین ججز پر مشتمل جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے۔علاوہ ازیں سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے عدالتی معاملات میں مداخلت پر تشویش کا اظہار بھی کیا اور کہا ہے کہ اداروں کے مداخلت عدلیہ کی غیر جانبداری اور عدالتی نظام پر ضرب لگانے کے مترادف ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کا مداخلت کا بے نقاب کرنا قابل تعریف عمل ہے۔