مزید خبریں

بچوں پر شفقت

بچے اللہ کی امانت ہیں۔ شفقت اور محبت انکا حق ہے۔ ہمارے معاشرے میں بچوں پہ ڈانٹ ڈپٹ، جھڑکی، اور بعض اوقات مار بھی معمولی بات سمجھی جاتی ہے۔ کوئی غلطی، شرارت، جھگڑا یا نمبر کم آئیں تو ایک ہی طریقہ رائج ہے ڈانٹ یا مار۔ جیسے یہ گویا نا قابل تلافی، نا قابل معافی گناہ ہیں اور ان کی یہی سزا ہے۔
‎ پیار شفقت اور عزت جیسے بیش قیمت رویوں کا بچوں سے ذیادہ کون مستحق ہے جو ابھی چھوٹے ہیں اور سیکھنے کی عمر میں ہیں۔
‎افسوس تو یہ ہے کہ آج بھی بہت سی مائیں کہتی ہیں کہ ہم بھی تو مار کھا کر بڑے ہوئے ہیں اور بچوں کو نہ مارنے والا ٹرینڈ اب آیا ہے۔
حضرتعبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ شخص ہم میں سے نہیں  جوہمارے چھوٹوں پر مہربانی نہ کرے اورہمارے بڑوں کا مقام نہ پہچانے‘‘۔ (جامع ترمذی 🙂

‎یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے بچوں پہ شفقت کا درس دیا اور خود بھی بچوں پہ بے حد شفقت فر ماتے تھے۔ لہذا بچوں سے شفقت اور محبت سے پیش آنا نیا ٹرینڈ نہیں بلکہ “سنت رسول اللہ سلی اللہ علیہ وسلمہے ۔
‎کچھ دن پہلے نظر سے ایک عجیب و غریب سی تحریر گزری۔لکھا گیا تھا کہ “پاکستان میں بچوں کی نشو و نما کے لئیے بہترین ہیں، امی کے ہاتھ کی چپیڑیں”۔
‎کچھ لمحے کو بہت افسوس بھی ہوا اور حیرانی بھی کہ ہم کس ڈگر چل پڑے۔ بچوں کی تربیت جیسے حساس کام کے لئے “چپیڑوں” یعنی مار کو اہم قرار دیا گیا۔

‎زرا سوچئیے!!!
‎جہاں بچے کو ڈانٹ ڈپٹ اور مار جیسے رویوں کا سامنا ہو، اس کی شخصیت، ذہنی اور جسمانی صحت پہ اسکا کیا اثر پڑتا ہو گا۔ بچے کی عزت نفس کیونکر محفوظ رہے گی۔ اور بڑا ہو کر وہ بچہ ان رویوں کی بدولت، معاشرے میں کیا کردار ادا کرے گا۔ انھی رویوں کو سیکھ کر وہ یہی رویے اپنائے گا اور استعمال کرے گا۔
‎گویا!
‎وہی ڈانٹ ڈپٹ، مار اور چپیڑیں۔۔۔

‎زرا غور کیجیے!!!
‎حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ سنہ سے روایت ہے، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔(صحیح بخاری 🙂
‎تو اس حدیث پاک کی روشنی میں کیا بحیثیت مسلمان، بچوں کو ذیادہ حق نہیں کہ ان سے شفقت اور درگزر کا معاملہ کیا جایے۔
‎ایک خاتون نے بتایا کہ ان کو بارہا ان کی سہیلی کی جانب سےمشورہ دیا جاتا ہے کہ اپنے پانچ سالہ بچے کو تمیز دار بنانے اور ضدی پن دور کرنے کے لئے اس کو اندھیرے کمرے میں بند کرو۔ ایک اور خاتون نے بتایا کہ ان کے جاننے والے بچوں کو اپنے موبائل فون میں موجود انتہائی ڈراؤنی تصاویر دکھا کہ کنٹرول کرتے ہیں۔ گویا معصوم بچوں کو پیار اور شفقت سے سمجھانا مشکل اور سزا دینا آسان ہے۔ کیا اس طرح وہ بچہ عمر بھر خوف میں مبتلا نہیں ہو جائے گا؟ کیا اس کی شخصیت اور نفسیات پہ برا اثر نہیں پڑے گا؟ ۔

‎’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو بوسہ دیا۔ اُس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اقرع بن حابس تمیمی بھی بیٹھے تھے وہ بولے: (یا رسول اللہ!) میرے دس بیٹے ہیں میں نے تو کبھی اُن میں سے کسی کو نہیں چوما۔ اِس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے اُس کی طرف دیکھ کر فرمایا: جو رحم نہیں کرتا اُس پر رحم نہیں کیا جاتا۔‘‘( سنن ابی داؤد (5218)

‎ ایک تحریر نظر سے گزری کہ میری سہیلی امتحانات شروع ہونے سے پہلے سب بچوں کی خوب پٹائی کرتی ہیں تاکہ امتحانات میں اس ڈر کی وجہ سے محنت کریں اور اچھا رزلٹ دیں۔ افسوس ! کیا امتحانات میں اچھے نمبر لینے کے لئیے بچوں کی نفسیاتی اور جذباتی صحت کو گزند پہنچانا ضروری ہے؟

‎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ میں بچوں سے محبت، شفقت اور رحم کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں سے ہمیشہ پیار سے پیش آتے۔
ایک رویہ یہ بھی ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے
‎بچوں کو سختی نہ کر کے بہت نازک بنا دیا ہے جس کی وجہ سےانکو ذہنی صدمے ہو جاتے ہیں، اور ہمارےدور میں بچوں کی مار کٹائی کی جاتی تھی مگر ہم تو بہت تمیز دار ہیں” ۔

‎زرا غور کیجیے اس حدیث پہ۔ سیدنا انس بن مالک‌ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌ صلی اللہ علیہ وسلم کی دس برس تک خدمت کی۔ (ایک روایت میں نو سال کا ذکر ہے) آپ‌ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جو حکم بھی دیا اور پھر مجھ سے اس بارے میں کوتاہی ہو گئی یا نقصان ہو گیا تو آپ ‌صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ملامت نہیں کی اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں سے کسی نے بھی مجھے برابھلا کہا تو آپ‌ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: اسے چھوڑ دو،اگر ایسا ہونا مقدر میں ہے تو وہ ہو کر رہے گا۔ (مسند احمد -11180)

‎لہذا! ‎ڈانٹ دینے کا مطلب ہوا کہ والدین کو بات سمجھانا نہیں آتا۔ اور جب ڈانٹا جاتا ہے یا مارا جاتا ہے تو بچے کا دماغ ایمرجنسی کی کیفیت میں چلا جاتا ہے اور حواس خمسہ کچھ دیر کے لیے کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ یعنی بچہ اس وقت کچھ بھی سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے۔

‎بہتر تربیت کے لیے بچوں سے تعلق مضبوظ بنانا ہو گا۔ پیار سے سمجھانا ہو گا۔ اس کی عزت نفس کا خیال کرنا ہو گا۔ اپنے طرز عمل سے دکھانا ہو گا۔
‎مسلسل اس کوشش میں رہتی ہوں کہ ننھے منے زہنوں کو اذیت نہ دوں تو بار ہا اپنے آپ کو یاد دہانی کراتی ہوں کہ ان کو نہیں ڈانٹنا۔

‎ بچوں کے ساتھ مل کر کچھ اصول بنائے ہیں کہ جب غصہ آئے تو ہم کیا کریں گے۔ اس کے تحت میری بیٹی مجھے یاد دلا دیتی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا” غصہ نہ کرو”۔
‎اور پھر جو بھی غصے میں آئے تو ہم سب پانچ گہری سانسیں لیتے ہیں اور ہلکا پھلکا محسوس کرتے ہیں۔
‎آعوذ بااللہ پڑہتے ہیں اور ایک دوسرےکو ہنسانے کی کوشش کرتے ہیں تا کہ بات ڈانٹ ڈپٹ یا تلخ کلامی تک نہ پہنچے۔‎
OOO