مزید خبریں

تلاوتِ قرآن اور اسوۂ صحابہؓ

قرآن کریم سے تعلق کا اوّلین اظہار اس کی تلاوت سے ہوتا ہے۔ صحابہ کرامؓ اس کے غایت درجہ مشتاق رہتے تھے۔ وہ اپنے شب وروزکے زیادہ تر اوقات اس کی تلاوت میں گزارتے تھے۔ اس کے لیے انھوںنے قرآن مجید کو مختلف ٹکڑوں (احزاب) میں تقسیم کر رکھا تھا۔

اوس نامی ایک تابعی بیان کرتے ہیں کہ: میں نے متعدد صحابہ کرامؓ سے دریافت کیا کہ آپ لوگوں نے قرآن کو مختلف ٹکڑوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ اس اعتبار سے ایک ٹکڑے میں کتنی سورتیں ہوتی ہیں؟ انھوں نے جواب دیا: تین، پانچ، سات، نو، گیارہ اور اخیر کی تمام چھوٹی سورتیں ایک ٹکڑے میں شامل تھیں۔ (سنن ابی دائود)

صحابہ کرامؓ کے غایت شوق کا یہ عالم تھاکہ وہ کم سے کم وقت میں پورا قرآن مجید پڑھ لینا چاہتے تھے۔ اس معاملے میں غلو سے روکنے اور اعتدال کی روش پر قائم رکھنے کے لیے آپؐ نے بعض پابندیاں عائد کردی تھیں۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ نے ایک موقع پر دریافت کیا: اے اللہ کے رسولؐ! میں قرآن کو کتنے دنوں میں ختم کروں؟ فرمایا: ایک مہینے میں۔ انھوں نے عرض کیا: مجھ میں اس سے زیادہ کی طاقت ہے۔ فرمایا: بیس دن میں ختم کرلو۔ انھوں نے اسی طرح اور بھی کم دنوں میں ختم کرلینے پر اپنی قدرت ظاہر کی تو آپؐ نے ان کی رعایت سے پندرہ دن، پھر دس دن، پھر سات دن میں ختم کرنے کی اجازت دی، ساتھ ہی یہ بھی فرمایا: ’’سات دن میں پورا قرآن پڑھ لو، اس سے کم میں ہرگز ختم نہ کرو‘‘۔ (سنن ابی داؤد، صحیح بخاری، صحیح مسلم)

بعض روایتوں میں ہے کہ ان کے اصرار پر رسولؐ نے انھیں تین دنوں میں قرآن ختم کرنے کی اجازت دے دی۔ لیکن جب انھوں نے عرض کیا کہ وہ اس سے بھی کم وقت میں پورا قرآن پڑھ سکتے ہیں تو آپؐ نے ایسا کرنے سے منع کیا اور فرمایا: ’’جو شخص تین دنوں سے کم وقت میں قرآن ختم کرے گا، وہ ٹھیک طریقے سے اسے سمجھ نہیں سکتا‘‘۔ (بخاری، مسلم، ابوداؤد)

امام نوویؒ نے متعدد صحابہ، تابعین اور بعد کے دور کے بزرگوں کے نام تحریر کیے ہیں، جو ایک دن میں قرآن ختم کرلیتے تھے، بلکہ ان میں سے بعض ایک دن میں دو قرآن ختم کرلیتے تھے۔ (ملاحظہ کیجیے: نووی، ابو زکریا یحییٰ بن شرف، التبیان فی آداب حملۃ القرآن، تحقیق و ترویج: عبدالقادر الارنووط، دمشق، ص: 46-49) لیکن رسولؐ کی ناپسندیدگی کی وجہ سے ایسا کرنا غیرمسنون معلوم ہوتا ہے۔

تلاوتِ قرآن کا ایک ادب یہ ہے کہ اس کو بہت جلدی جلدی نہ پڑھا جائے کہ محسوس ہوکہ سرکا بوجھ اْتارا جارہا ہے، بلکہ ٹھیر ٹھیر کر پڑھاجائے۔ ام المومنین سیدہ ام سلمہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسولؐ کی قرأت قرآن میں ایک ایک حرف صاف سنائی دیتا تھا۔ (سنن ابی داؤد، مسند احمد)

یہی معاملہ صحابہ کرامؓ کا بھی تھا۔ ایک موقع پر سیدنا عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا:
’میں ترتیل کے ساتھ صرف ایک سورہ پڑھوں، یہ میرے نزدیک اس سے زیادہ بہتر ہے کہ (بغیر ترتیل کے) پورا قرآن پڑھ لوں‘۔ ( نووی، التبیان)

ایک مرتبہ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کے سامنے ایک شخص نے کہا: میں مفصل سورتیں (سورئہ حجرات جو 26ویں پارے میں ہے، سے سورۂ ناس تک) ایک رکعت میں پڑھ لیتا ہوں۔ انھوں نے جواب دیا: اس کا مطلب یہ ہے کہ تم قرآن کو اشعار کی طرح جلدی جلدی پڑھ لیتے ہو۔ (بخاری، مسلم)

اس موقع پر انھوں نے مزید فرمایا: ’کچھ لوگ قرآن اس طرح پڑھتے ہیں کہ وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترتا۔ حالاں کہ قرآن مجید جب دل میں اترجائے اور اس میں جاگزیں ہوجائے تب نفع دیتا ہے۔ (مسلم)

رسولؐ نے قرآن کریم کو خوش الحانی کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے: ’’قرآن کو اپنی آوازوں سے زینت دو‘‘۔ (سنن ابی داؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ)

دوسری حدیث میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’جس شخص نے قرآن کو خوش الحانی سے نہیں پڑھا، وہ ہم میں سے نہیں‘‘۔ ( سنن ابی داؤد، سنن ابن ماجہ، مسند احمد)

اسی بنا پر صحابہ کرامؐ بہت خوش الحانی کے ساتھ قرآن کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ جس سے سننے والوں پر محویت طاری ہوجاتی تھی۔ سیدنا ابوبکرؓ کے حالات میں بیان کیا گیا ہے کہ انھوںنے اپنے گھر کے باہر نماز کے لیے ایک جگہ مخصوص کر رکھی تھی، جہاں بیٹھ کر قرآن مجیدکی تلاوت کیا کرتے تھے۔ ان کی آواز سن کر مشرکین مکہ کی عورتیں اور بچّے اکٹھے ہوجاتے تھے اور بڑے غورو انہماک سے قرآن مجید سنتے تھے۔ یہ دیکھ کر مشرکین اس اندیشے میں مبتلا ہوگئے کہ کہیں قرآن ان پر اپنا اثر نہ دکھانے لگے اور وہ ایمان نہ لے آئیں۔ چنانچہ انھوںنے مکہ کے بااثر سردار ابن الدغنّہ (جس نے سیدنا ابوبکرؓ کو ’جوار‘ دے رکھی تھی) سے شکایت کی۔ اس نے انھیں اس سے روکنا چاہا تو انھوں نے اس کی جوار (پڑوسی ہونے کی حیثیت سے جائداد وغیرہ کی خریداری کا حق) واپس کردی۔ (ابن ہشام، السیرۃ النبوی)