مزید خبریں

عبادات میں اللہ کا خوف اور خشوع وخضوع نہ ہوتو انسانی اعمال پر اثرات مرتب نہیں ہوتے

کراچی ( رپورٹ \محمد علی فاروق ) عبادات میں اللہ کا خوف اور خشوع وخضوع نہ ہو تو انسانی اعمال پر اثرات مرتب نہیں ہوتے‘ مسلمانوں کی قلیل تعداد ہی نماز ادا کرتی ہے‘ سمجھ کر عبادات نہیں کی جاتیں‘ لقمہ حرام سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوا ہے‘ اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کیا جائے‘ نماز بے حیائی سے نجات دلاتی اور روزہ تزکیہ نفس کا اہم ذریعہ ہے‘ زکوٰۃ بخل کو دور کرتی اور حج انسان کو پاک کرتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار تنظیم اسلامی پاکستان کے امیر شجاع الدین شیخ، مجدد الف ثانی ویلفیئر ٹرسٹ انٹرنیشنل کے چیئرمین علامہ ذاکر احمد نقشبندی اور فروغ اسلام فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر مولانا عطا اللہ عبدالرؤف نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’ہماری عبادات ہمارے کردار کو کیو ں نہیں بدلتیں؟‘‘ علامہ شجاع الدین شیخ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ مالک، رازق، محافظ پیدا کرنے اور پالنے والا رب حقیقی ہے‘ اللہ تعالیٰ کی محبت میں تمام تر صفات کے ساتھ اس کے حکم کو مانا جائے تو وہ عبادت قرار پاتی ہے اس کے اثرات بھی مسلمانوںکی زندگی پر مرتب ہوتے ہیں‘ کئی بار ہماری زندگی میں عبادات نماز، روزہ، زکوٰۃ، عمرہ و حج ظاہر ی اعمال کے ساتھ ادا کیے جاتے ، مگر اس کی حقیقی روح مفقود ہوتی ہے جس کی وجہ سے عبادات کے اثرات ہمارے کردار پر اثر انداز نہیں ہوتے‘ قرآن کریم کی سورۃ البقرہ آیت 165میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جس کا مفہوم ہے کہ جو لوگ ایمان لائے ان کی شدید ترین محبت اللہ سبحان تعالیٰ کے لیے ہوتی ہے، اس محبت کی جستجو کے معنی ہیں کہ اللہ ہمارا خالق، مالک، رازق، رب حقیقی ہے جب بندہ اللہ کے احکامات پر سر تسلیم خم کر دیتا ہے‘ جھکتا ہے اس سے مانگتا ہے تو وہ عبادات کا لطف بھی اٹھاتا ہے بلکہ عبادات اس کے ظاہری اعمال تک محدود نہیں رہتیں اس کے اثرات اس کے باطن و ظاہر، محل وقوع پر اثر انداز ہونے کے ساتھ اس کے کردار کو بھی سنوار دیتی ہے‘ اللہ تعالیٰ قرآن حکیم کی سورۃ العنکبوت آیت 45 میں فرماتے ہیں کہ نماز اگر اس کے مکمل اعداد کے ساتھ ادا کی جائے یعنی یہ احساس ہوکہ کس کے سامنے کھڑے ہیں اور کس کے سامنے جھک رہے ہیں جو الفاظ ادا کر رہا ہے ہیں ان کو سمجھ کر تلفظ کے ساتھ ادا کر ے تو اس کے اثرات بندے کے باطن و ظاہر پر پڑتے ہیں اور اللہ کا خوف اور خشوع وخضوع پیدا ہوتا ہے اس سے بندے کے اعمال پر بھی اثر پڑے گا اور وہ نما ز کی ادائیگی کے بعد بھی دیگر تمام معاملات میں اللہ تعالیٰکے احکامات کو مانے گا‘ اللہ کو ہر معاملے میں بڑا ماننا ہی دراصل اس کے احکامات کی بجا آوری ہے‘ اس طرح اللہ کے احکامات پر عمل درآمد کرنے سے معاشرے پر بھی اثرات مرتب ہوں گے‘ مسلمانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ اس شعر کے مطابق (رہ گئی رسم اذاں، روح بلالی نہ رہی، فلسفہ رہ گیا، تلقین غزالی نہ رہی، رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے، وہ دل وہ آرزو باقی نہیں ہے، نماز، روزہ، قربانی و حج، یہ سب باقی ہیں، تو باقی نہیں ہے) اخلاص کی چاشنی، خوف خدا ، اللہ کے سامنے جواب دہی کا احساس، محبت الٰہی کے ساتھ اپنی زندگی کے تمام معاملات پر اللہ تعالیٰ کے احکامات پر سر تسلیم خم کرنا ہی وہ پہلو ہے جو مسلمانوں نے نظر انداز کر دیا ہے‘ اسی وجہ سے شاید آج عبادات کے اثرات ان کی عملی زندگی میں کہیں دکھائی نہیں دے رہے‘ مالی معاملات بگڑنے سے لقمہ حرام جب ہمارے وجود میں جاتا ہے تو ہماری دعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں‘حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے اس کے اثرات معاشر ے پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ علامہ ذاکر احمد نقشبندی نے کہا کہ اللہ رب العزت نے جہاں انسان کی جسمانی ضرورت کے لیے اشیائے ارض کو مسخر کیا وہیں اس کی روحانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اسے اپنی عبادات و احکامات کا پابند بنایا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے، وما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون۔ ’’اور ہم نے جنوں اور انسانوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا۔‘‘ اللہ تعالیٰ ایک انسان کو اس مقام پر دیکھنا چاہتا ہے‘ اسی لیے اس نے عبادات میں تقویٰ، اخلاص اور خشیت الٰہی کو بنیادی اہمیت دے کر مسلمان کو زندگی گزارنے کا پابند بنایا ہے۔ انسانی زندگی میں خشیت الٰہی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے یعنی جب گناہ کرنے کا اختیار اور طاقت بھی ہو مگر یہ سوچ کر گناہ سے روک جانا کہ اللہ تعالیٰ نے منع فرما یا ہے‘ اللہ رب العزت کے سامنے جواب دہی کا خوف ہی مومن کی زندگی میں اس قدر شامل ہوتا ہے کہ وہ ہر لمحہ خوف ِخدا میں گزارتا ہے۔ اور یہی مفہوم اشرف المخلوقات کے معنی و مفہوم پر پورا اترتا ہے ۔ عمل و عبادت نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور دوسری اصطلاحی عبادات بھی صرف اسی صورت میں عبادت میں شمار ہوں گی جب کہ انہیں احکام الٰہی کے مطابق ٹھیک وقت پر‘ مقرر طریقے سے اور مطلوب نیت کے ساتھ ادا کیا جائے گا، اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ فی الحقیقت عبادت نام ہے اللہ کی اطاعت‘ اس کے احکام کی پابندی اور اس کی حدود کی پاسداری کا۔ پس انسانی زندگی کے جن جن کاموں میں اللہ کی اطاعت‘ اس کے احکام کی پابندی‘ اور اس کی حدود کی پاس داری شروع کر دی جائے‘ وہ سب عبادت الٰہی میں داخل ہوتے جائیں گے‘ انسان ان سب کو اپنی حد تک ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے‘ تو اس کی پوری زندگی عبادت ہے۔’’عمل و عبادت‘‘ حقیقت میں نام ہے ان تمام افعال انسانی کا جو احکام الٰہی کے مطابق اور رضائے الٰہی کے لیے اخلاص و شعور کے ساتھ کیے جائیں حتیٰ کہ بقا نسل انسانی کے فریضے کے سلسلے میں حقوق زوجیت کی ادائیگی اور اپنے بیوی بچوں کی محبت و شفقت کے ساتھ نگہداشت بھی عبادت الٰہی میں داخل ہے‘ ایسا ہی شخص دراصل اللہ کے ذکر میں ہر وقت مشغول ہے اور کسی دم اللہ سے غافل نہیں ہوتا۔ دراصل ہم تو ابھی تک اپنی تخلیق کے مقصد سے ہی نا واقف ہیں۔ یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اگر عبادات کا اصل مفہوم اور مقصد ہم پر واضح ہو جائے اس پر عمل کرنے سے عبادات کا لطف ہی دو بالا ہوجاتا ہے‘ مسلمان کو اپنی زبان، جان، مال کو اللہ کے احکامات کے مطابق حقوق اللہ اور حقوق العباد کے درمیان توازن قائم رکھتے ہوئے ادا کرنا چاہیے‘یہی اسلامی تعلیمات کا نچوڑ اور خلاصہ ہے۔ ہم عبادت کے اصل مفہوم سے ناواقف ہیں یہی وجہ ہے کہ ہماری عبادت ہمارے کردار پر اثر انداز نہیں ہو رہی ہے۔ مولانا عطا اللہ عبدالرئوف نے کہا کہ ہم اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ شاید ہم عبادت گزار ہیں حقیقت یہ ہے کہ عبادات میں نما ز، روزہ، زکوٰۃ، اور حج ارکان اسلام کا درجہ رکھتے ہیں‘ انتہائی قلیل تعداد ان پر عمل کرتی ہے‘ غالب ترین اکثریت ان عبادات سے یکسر بے گانہ ہے ‘ یہاں تک کہ نما ز جو دین میں بنیادی ستون کا درجہ رکھتی ہے‘ اگر اس پر سروے کیا جائے تو انکشاف ہوگا کہ مسلمانوں کی بہت قلیل تعداد ہی نماز ادا کر تی ہے‘ یہی حال دیگر عبادات کا بھی ہے، اللہ تعالیٰ نے عبادات میں ایسی تاثیر رکھی ہے کہ ان پر عمل کرکے سکون و اطمینان میسر آتا ہے، اللہ کے سامنے جواب دہی کا احساس دل میں رکھتے ہوئے نماز ادا کی جائے تو بے حیائی اور برائیوں سے نجات مل جاتی ہے‘ روزہ تزکیہ نفس کا اہم ذریعہ ہے‘ زکوٰۃ انسان سے بخل کی بیماری کو دور کرتی ہے اور یہ احساس دلاتی ہے کہ یہ مال اللہ کا ہے اس کے ہی حکم سے کچھ حصہ خرچ کرنے سے باقی مال پاک ہو جاتا ہے‘ ارکان اسلام پر عمل کر نے سے حلال و حرام میں تمیز پیدا ہوتی ہے‘ حج تو ایسا ہے کہ گویا انسان توبہ کر کے پاک صاف ہوجاتا ہے جیسے اس نے ابھی جنم لیا ہو، اس لیے یہ کہنا کہ عبادات اثر نہیں کرتیں اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ ہم عبادات کو سمجھتے ہی نہیں ہیں‘ عبادات ہم سے کیا تقاضا کر تی ہیں‘ عبادات کی بجا آوری میں زبان سے ادا ہونے والے الفاظ کے معنی و تشریح سے ہم ناواقف ہیں، ان الفاظ کو سمجھنا چاہے ایسا نہیں ہے کہ ان عبادات کے کرنے سے سرے سے ہی کوئی اثر نہیں ہوتا بلکہ ان کی ادائیگی بہرحال اپنا اثر رکھتی ہے‘ ایک نو مسلم شخص جس نے تازہ تازہ اسلام قبول کیا ہو یا ایسا مسلمان جس نے کبھی بھی اسلام کو سمجھنے کی کوشش ہی نہ کی ہو اس کے پاس قرآن ، نماز اور اس میں پڑھے جانے والے الفاظ کا علم انتہائی محدود ہوتا ہے، مگر اس کے باوجود اگر وہ ارکان اسلام پر عمل پیرا رہے تو اس کے کردار پر ان کا اثر بہرحال پڑتا ہے‘ ضرورت اس بات کی ہے کہ قوم کو تعلیم دی جائے کہ عبادت دین اسلام میں مرکزی ارکان کا درجہ رکھتی ہے‘ اس کی اہمیت و تشریح کو واضح کیا جائے اور اس بات کو باور کرایا جائے کہ کائنات کے مالک و رب نے انسان کی فلاح و بہبود کے لیے جو ہدایات دی ہیں ان کی روشنی میں ہی اپنی زندگی کے معاملات کو ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔