مزید خبریں

مساجد میں خواتین کا داخلہ

دوسرے مذاہب سے مجھے واقفیت نہیں، لیکن اسلام کا ایک طالب علم ہونے کی حیثیت سے میں پورے اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ اسلام میں دینی و شرعی اعتبار سے خواتین کے مسجد میں داخلے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ اس سلسلے میں اللہ کے رسولؐ کا صریح فرمان ہے: ’’تمھاری عورتیں جب مسجد جانے کے لیے تم سے اجازت چاہیں تو انھیں اس سے نہ روکو‘‘۔ (مسلم)
عہد نبوی میں بھی بعض لوگ خواتین کا گھر سے باہر نکلنا، خواہ نماز کے لیے ہو، پسند نہیں کرتے تھے، لیکن اللہ کے رسولؐ کے اس صریح ارشاد کی وجہ سے انھیں روکنے کی ہمّت نہیں ہوتی تھی۔ انہی میں سے ایک عمر بن خطابؓ بھی تھے۔ انھیں خواتین کا نکلنا پسند نہ تھا، لیکن ان کی زوجہ سیدہ عاتکہؓ برابر مسجد جاتی تھیں۔ کسی نے ان سے کہا کہ جب آپ کو اپنے شوہر کا عندیہ معلوم ہے تو آپ ان کی خواہش پر عمل کیوں نہیں کرتیں؟ انھوں نے پوچھنے والے سے الٹا سوال کردیا کہ پھر وہ مجھے روک کیوں نہیں دیتے؟ پوچھنے والے نے کہا: اللہ کے رسول کی صریح اجازت کی وجہ سے وہ ایسا نہیں کرتے۔ (بخاری)

چنانچہ سیدہ عاتکہؓ برابر مسجد جاتی رہیں۔ وہ اس نماز کے موقع پر بھی مسجد میں موجود تھیں جب سیدنا عمرؓ پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا۔ ایک مرتبہ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ نے یہی حدیث سنائی تو ان کے بیٹے نے کہا کہ ہم تو اپنی خواتین کو مسجد نہیں جانے دیں گے۔ حضرت ابن عمرؓ نے اس کو انتہائی سخت اور درشت انداز میں ڈانٹا کہ میں تجھے اللہ کے رسولؐ کا حکم سنا رہا ہوں اور تو اس سے سرتابی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ (مسلم)

بدقسمتی سے بعد کی صدیوں میں خواتین کے مساجد میں جانے کی ہمّت شکنی کی گئی اور وہاں انھیں ادائی نماز کی سہولیات نہیں فراہم کی گئیں، جس کی بنا پر مساجد میں ان کی حاضری کم سے کم ہوتی گئی، یہاں تک کہ بالکل ختم ہوگئی۔ اب عام طور پر خواتین مساجد نہیں جاتیں، اگر کوئی خاتون جانا چاہے تو وہاں اس کے لیے نظم نہیں ہوتا۔ کوئی خاتون اس کا مطالبہ کرے تو اسے ایسی نظروں سے دیکھا جاتا ہے جیسے اس نے کسی ناجائز چیز کا مطالبہ کردیا ہو اور اسے آزاد خیال اور باغی سمجھا جاتا ہے۔

خواتین کو مساجد سے روکنے کے لیے متعدد عذر تراشے گئے۔ ان کی عزّت و عصمت کے تحفّظ کی بات کہی گئی، فسادِ زمانہ کی دلیل دی گئی، ان کی وجہ سے مساجد کی پاکیزگی اور تقدّس میں خلل پڑنے کے اندیشے ظاہر کیے گئے۔ صحیح بات یہ ہے کہ یہ سب بے بنیاد توجیہات ہیں۔ اللہ کے رسولؐ نے خواتین کو مسجد جانے کی اجازت دی ہے اور مردوں کو حکم دیا ہے کہ وہ انھیں نہ روکیں۔ اس لیے کسی کے لیے جائز نہیں، خواہ وہ کوئی بھی ہو کہ وہ انھیں اس حق سے محروم کرے۔

اب وقت آگیا ہے کہ ہر مسئلے کو قرآن و سنت اور صدر اوّل (قرون مشہود لھا بالخیر) کے تعامل کی روشنی میں دیکھا جائے اور اس کا حل پیش کیا جائے۔ بعد کی صدیوں میں فقہی تصلّبات کی وجہ سے جو سختیاں اختیار کی گئی ہیں اور غیر ضروری احتیاط کو روا رکھا گیا ہے اسے دین کا جز نہ سمجھا جائے۔ خاص طور سے مساجد میں خواتین کے داخلے کے مسئلے کو اسی اعتبار سے دیکھا جائے۔ مساجد عبادت کے مقامات اور روحانیت کے مراکز ہیں، وہاں مسلم سماج کے افراد کو تربیت و تزکیہ، روحانیت کے ارتقا اور دینی تعلیم کے مواقع حاصل ہوتے ہیں۔ مسلم خواتین بھی اسلامی سماج کا حصہ ہیں۔ انھیں بھی تربیت و تزکیے کے ان مراکز سے استفادہ کرنے کے مواقع فراہم کیے جانے چاہییں۔

نئی مساجد کو اس طرح تعمیر کیا جائے کہ ان میں خواتین کے لیے مخصوص گوشہ ہو۔ آمادگی ہو تو قدیم مساجد میں بھی بہ آسانی ان کے لیے گوشے مخصوص کیے جاسکتے ہیں۔ ہمیں مساجد میں آنے کی خواہش مند خواتین کو روکنے کے بجائے ان کی تربیت کی تدابیر اختیار کرنی چاہییں۔ ہم ان کو بتائیں کہ اللہ کے رسولؐ نے جہاں خواتین کے لیے مسجد میں آنے کی اجازت دی ہے، وہیں اس کے آداب بھی بیان کیے ہیں۔ آپؐ نے مردوں اور عورتوں کے درمیان اختلاط سے سختی سے منع کیا ہے، مسجد سے باہر بھی اور مسجد کے اندر بھی۔ آپ نے عورتوں کے لیے مسجد کا ایک دروازہ خاص کردیا تھا۔ آپ نے خوش بو لگاکر اور زیب و زینت اختیار کرکے عورتوں کے گھر سے نکلنے کو منع کیا ہے۔

موجودہ دور کا تقاضا ہے کہ نہ صرف مساجد میں حاضری کے معاملے میں، بلکہ زندگی کے دیگر معاملات میں، خواتین کو اسلام نے جو حقوق دیے ہیں، ہم شرحِ صدر کے ساتھ انہیں وہ حقوق دینے پر آمادہ ہوجائیں۔ مسلمان خواتین کو ہم اپنا حریف بنانے کے بجائے حلیف بنائیں۔ انھیں ورغلانے اور دین سے برگشتہ کرنے کے لیے ’شیاطین‘ اپنا پورا زور لگا رہے ہیں۔ ہمیں ان کی سازشوں کو ناکام بنانا ہے اور حکمت اور دانائی کے ساتھ ان کا توڑ کرنا ہے۔ اگر امّت کے باشعور طبقے اور خاص طور پر طبقۂ علما اور دینی تنظیموں کے سربراہوں نے ہوشیاری کا مظاہرہ نہ کیا تو انھیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔