مزید خبریں

کسی کی سامنےاس کی تعریف

انسان کی فطرت ہے کہ دوسروں کے منہ سے اپنی تعریف سن کر اسے خوشی اور اپنی برائی سن کر رنج ہوتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ لوگوں میں اس کا ذکر ِخیر ہو، اس کے بارے میں ان کے اچھے احساسات ہوں، اس کے عیوب اور کمزوریاں ان کی نگاہوں سے پوشیدہ رہیں اور اسے اس کے نیک کاموں اور اچھے اوصاف سے یاد کیا جائے۔

اس معاملے میں لوگوں کا رویہ افراط وتفریط کا شکار رہتا ہے۔ بعض لوگ اتنے خود پسند ہوتے ہیں کہ انھیں اپنے علاوہ دوسرے کسی انسان میں کوئی خوبی نظر نہیں آتی۔ کسی کی تعریف وتوصیف کے معاملے میں وہ انتہائی بخیل ہوتے ہیں۔ دوسروں کی معمولی خامیاں اور کوتاہیاں تو ان کی نگاہیں فوراً اچک لیتی ہیں اور ان کی زبانیں ان کا ڈھنڈورا پیٹتے نہیں تھکتیں، لیکن ان کے محاسن ومحامد پر ان کی نگاہیں نہیں پڑتیں اور ان کی زبانوں سے ان کے حق میں دو بول نہیں نکلتے۔ اس کے برعکس بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دوسروں کی تعریف و تحسین میں مبالغے سے کام لیتے ہیں۔ وہ کسی کی مدح وستائش کرنے پر آتے ہیں تو اس کے پل باندھتے چلے جاتے ہیں، تملق اور چاپلوسی ان کا شیوہ ہوتا ہے۔ وہ متعلقہ شخص کے منہ پر اس کی تعریف میں زمین وآسمان کے قلابے ملاتے ہیں۔ اس کا مقصد ان کے نزدیک کسی فائدے کا حصول اس شخص سے قربت یا اسی طرح کی کوئی دوسری غرض ہوتی ہے۔

مؤخرالذکر رویہ پہلے رویے سے زیادہ خطرناک ہے۔ اس لیے کہ اس بات کا عین امکان ہے کہ بہت زیادہ تعریف و توصیف سن کر انسان اپنے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہوجائے۔ وہ کبر وغرور میں مبتلا ہوجائے۔ اپنے متعلق تقویٰ، عبادت گزاری، امانت و دیانت، حق پسندی اور پارسائی کے اوصاف سن کر عجب اور نخوت کے جال میں جاپڑے اور یہ چیز اسے مزید اعمال خیر سے روک دے۔ شیطان اسے اس بہکاوے میں مبتلا کردے کہ تم بہت بڑے متقی و پرہیز گار انسان ہو، لو گ تمھاری پارسائی اور عظمت کے معترف ہیں اور تمھیں بڑا انسان سمجھتے ہیں۔ اسی لیے تمھارے سامنے اور پیٹھ پیچھے تمھارے گن گاتے اور قصیدے پڑھتے ہیں۔ اگر اپنی تعریف سن کر کوئی انسان اس حد تک خود فریبی کا شکار ہوجائے تو ہلاکت و خسران اس کا مقدر ہے اور جو شخص منہ پر اس کی بے جا تعریف وتوصیف کرکے اس کا سبب بنتا ہے وہ اسے ہلاکت میں ڈالنے کا براہ راست ذمے دار ہے۔

ممانعت کی احادیث
اسی لیے اللہ کے رسولؐ نے کسی کے منہ پر اس کی بے جا تعریف و توصیف سے سختی سے منع فرمایا ہے۔ ذیل میں اس مضمون کی چند احادیث ذکر کی جاتی ہیں:
سیدنا ابوموسیٰ اشعریؓ فرماتے ہیں:
’’نبیؐ نے ایک شخص کو دوسرے شخص کی خوب بڑھا چڑھا کر تعریف کرتے ہوئے سنا تو فرمایا: ’’تم نے اس شخص کو ہلاک کردیا‘‘، یا فرمایا کہ ’’تم نے اس کی کمر توڑ دی‘‘۔ بخاری)
سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکرہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص کا نبیؐ کی مجلس میں ذکر آیا تو ایک دوسرے شخص نے اس کی خوب تعریف کی۔ صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ تعریف میں اس نے یہ جملہ بھی کہا ’’اے اللہ کے رسولؐ، فلاں معاملے میں تو آپ کے بعد اس سے افضل کوئی دوسرا شخص نہیں ہے‘‘۔ آپؐ نے فرمایا: ’’تمھارا برا ہو، تم نے اپنے ساتھی کی گردن مار دی‘‘۔ (بخاری)

راوی کہتے ہیں کہ یہ بات آپؐ نے کئی بار دہرا ئی۔
سیدنا محجن اسلمیؓ ایک موقع کا تذکرہ کرتے ہیں کہ میں رسولؐ کے ساتھ مسجد میں تھا۔ آپؐ نے ایک شخص کو نماز پڑھتے اور رکوع و سجدہ کرتے ہوئے دیکھا تو مجھ سے دریافت فرمایا: یہ کون ہے؟ صحابی کہتے ہیں: میں اس کی خوب تعریف کرنے لگا۔ آپؐ نے فرمایا: رکو، اتنی زور سے نہ بولو کہ وہ سن لے، ورنہ ہلاک ہوجائے گا۔ (الادب المفرد)
سیدنا معاویہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسولؐ کو یہ ارشاد فرماتے سنا ہے: ’’کسی کی تعریف میں مبالغہ آرائی سے بچو، اس لیے کہ ایسا کرنا اسے قتل کرنے کے مثل ہے‘‘۔ (سنن ابن ماجہ)
یہی مضمون خلیفہ دوم عمرؓ سے بھی مروی ہے۔ ان کے خادم اسلم بیان کرتے ہیں کہ میں نے عمرؓ کو یہ فرماتے سنا ہے: کسی کی تعریف کرنا اسے قتل کرنا ہے۔ (الادب المفرد)
عمرؓ ہی کے بارے میں ایک دوسری روایت میں یہ مذکور ہے کہ ایک موقع پر ان کی مجلس میں ایک شخص نے دوسرے شخص کی تعریف کی تو انہوں نے فرمایا: ’’تم نے اس شخص کی جان لے لی، اللہ تمھیں ہلاک کرے‘‘۔ (الادب المفرد)

کیا یہ ممانعت مطلق ہے؟
کیا کسی شخص کے منہ پر اس کی تعریف کرنے کی یہ ممانعت مطلق ہے؟ اگر کوئی شخص کوئی اچھا کام کرے تو کیا اس کے سامنے یا اس کے غائبانہ میں اس کی تحسین وتوصیف میں دینی نقطۂ نظر سے کچھ کراہیت ہے؟ احادیث بالا کا ظاہری اور متبادر مفہوم یہی معلوم ہوتا ہے کہ کسی شخص کے منہ پر اس کی تعریف کرنے سے اس کے بھٹک جانے کا اندیشہ رہتا ہے، اس لیے اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ جس طرح کسی کو قتل کردینے سے اس کی مادی اور جسمانی موت ہوجاتی ہے، اسی طرح کسی کے منہ پر اس کی تعریف کرنے سے اس کی روحانی و اخلاقی موت ہوجاتی ہے۔ لیکن اس موضوع پر کسی نتیجے تک پہنچنے سے پہلے دیکھنا ہوگا کہ اس معاملے میں خود اللہ کے رسولؐ کا کیا اسوہ تھا؟

رسول ﷺ کا اسوہ
احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے مختلف مواقع پر مختلف صحابہ کرام کی تعریف و توصیف کی ہے۔ یہ توصیفات عمومی انداز کی بھی ہیں اور بسا اوقات کسی خاص فعل پر آپؐ نے کسی صحابی کی مدح کی ہے۔ اسی طرح بعض اوقات آپؐ کسی شخص کے سامنے اس کی تعریف کرتے تھے اور کبھی دوسرے صحابہ کو ترغیب دینے کے لیے اس کے غائبانہ میں اس کاذکر خیر کرتے تھے۔
سیدنا ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبیؐ نے ابوبکرؓ، عمرؓ، ابوعبیدہؓ، اُسید بن حضیرؓ، ثابت بن قیسؓ، معاذ بن عمرو بن الجموحؓ اور معاذ بن جبلؓ، ہر ایک کا نام لے لے کر فرمایا: اچھے آدمی ہیں۔ (الادب المفرد)
سیدہ عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں کہ ایک شخص نے رسولؐ کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت چاہی۔ آپؐ نے فرمایا: یہ برا آدمی ہے، پھر اسے اجازت دے دی۔ جب وہ چلا گیا تو ایک دوسرا شخص آیا، آپؐ نے اس کے بارے میں فرمایا: یہ اچھا آدمی ہے۔ (الادب المفرد)
سیدنا سعدؓ فرماتے ہیں: سیدنا عبداللہ بن سلامؓ کے سوا میں نے نبیؐ کی زبانِ مبارک سے کسی شخص کے بارے میں نہیں سنا کہ آپؐ نے اسے اس دنیا میں ہی جنت کی بشارت دی ہو۔ (بخاری)
اس مضمون کی بہت سی احادیث ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ نے مختلف صحابہ کرام ؓ کی مدح و ستائش کی ہے اور ان کی خوبیوں کا علی الاعلان ذکر فرمایا ہے۔ اس سے اشارہ ملتا ہے کہ کسی کی تعریف کی مطلق ممانعت نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو جس کام سے اللہ کے رسولؐ نے دوسروں کو روکا ہو، اسے خود ہرگز نہ کرتے۔

احادیثِ ممانعت کی توجیہ
احادیث کے الفاظ میں غو رکرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ممانعت کسی کی تعریف و توصیف کرنے سے نہیں، بلکہ اس میں مبالغہ آرائی کرنے سے ہے۔ پہلی حدیث میں ’’یطریہ‘‘ کا لفظ ہے۔ اس کے معنی ہیں: کسی شخص کی خوب بڑھا چڑھا کر تعریف کرنا۔ یہی لفظ تیسری حدیث میں بھی آیا ہے۔ دوسری حدیث میں بھی مبالغہ ظاہر ہے کہ ایک صحابی نے دوسرے صحابی کو کسی معاملے میں تمام لوگوں سے افضل قرار دیا تھا۔ چوتھی حدیث میں ’’تمادح‘‘ کا لفظ ہے۔ یہ لفظ عربی قواعد کے باب تفاعل سے ہے جس کی ایک خاصیت مبالغہ کی ہے۔ پانچویں حدیث میں ’’مداحین‘‘ آیا ہے۔ یہ بھی مبالغہ کا صیغہ ہے۔ ’’مداح‘‘ سے مراد وہ شخص ہے جس نے لوگوں کے منہ پر ان کی تعریف کو پیشہ بنا لیا ہو اور ایسا کرکے وہ ان سے کوئی فائدہ حاصل کرناچاہتا ہو۔ (ابن الاثیر)

حدیثِ مقداد کا مفہوم
سیدنا مقدادؓ سے مروی حدیث کہ جب تم مبالغہ آمیز تعریفیں کرنے والوں کو دیکھو تو ان کے منہ پر مٹی ڈال دو‘‘ اس کا ایک مفہوم تو یہی ہے کہ ایسے لوگوں کو بولنے کا موقع ہی نہ دو۔ چنانچہ اس حدیث کے راوی مقدادؓ ایسا ہی کرتے تھے۔ اس کا دوسرا مفہوم ناکامی ومحرومی ہے۔ یعنی اگر کوئی شخص تمھاری بے جا تعریف وتوصیف کرے تو اسے کچھ نہ دو، اسے اس کے مقصد میں ناکام بنا دو۔ یہ تعبیر عربی زبان میں کثرت سے آئی ہے۔ اور بعض دیگر احادیث میں بھی اختیار کی گئی ہے۔(جامع الاصول)

مدح کا صحیح طریقہ
اللہ کے رسولؐ نے جہاں بے جا تعریف وتوصیف کے مضرات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اس سے سختی سے روکا ہے وہیں اس کا صحیح طریقہ بھی بتایا ہے۔ سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکرہ کی اپنے باپ سے مروی حدیث میں آگے ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا:
’’جس شخص کو اپنے بھائی کی تعریف ہی کرنی ہو تو وہ یہ کہے: ’’اس کے بارے میں میرا یہ خیال ہے۔ حقیقت حال سے تو اللہ ہی واقف ہے۔ میرا گمان یہ ہے‘‘۔ یہ کہہ کر وہ اس کے بارے میں وہی بات کہے جس سے واقف ہو‘‘۔ (بخاری)
آپؐ کی خدمت میں مختلف افراد اور وفود آتے تھے۔ وہ آپ کی تعریف و مدح کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار رکرتے تھے، آپؐ ان کے ذکر کردہ اوصاف کے بجا طور پر مستحق ہوتے تھے۔ اس کے باوجود ان کی تربیت کے لیے آپ انھیں متنبہ فرمایا کرتے تھے کہ کسی کی مدح وستائش میں حد درجہ احتیاط سے کام لیا کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ شیطان کے بہکاوے میں آجائیں اور حدِ اعتدال سے تجاوز کرجائیں۔ سیدنا مطرّف اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ وفدِ بنوعامر کے ساتھ نبیؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ارکانِ وفد نے آپؐ سے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسولؐ! آپ ہمارے سردار ہیں‘‘۔ آپؐ نے فرمایا: ’’سردار تو اللہ تبارک وتعالیٰ ہے‘‘۔ ان لوگوں نے پھر عرض کیا: ’’آپ ہم میں سب سے افضل اور سب سے زیادہ داد و دہش کرنے والے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا:
’’یہ باتیں کہو یا ان میں سے کچھ چھوڑدو، لیکن ہوشیار رہنا، کہیں شیطان تمھیں بہکا نہ دے‘‘۔ (ابی داؤد)
ایک موقع پر اللہ کے رسولؐ نے صحابہ کرامؓ کو متنبہ کرتے ہوئے فرمایا:
’’میرے بارے میں اس طرح مبالغہ سے کام نہ لو جس طرح عیسائیوں نے عیسیٰ بن مریم کے بارے میں انتہائی مبالغہ کیا۔ میں بندہ ہوں، مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہو‘‘۔ (بخاری)