مزید خبریں

مرض سے شفایابی پر قربانی

حلال جانوروں کا گوشت کھانا اور کھلانا عام حالات میں، بغیر کسی مناسبت کے، جائز ہے۔ اسی طرح کسی مناسبت سے بھی اس کا جواز ہے۔ مثلاً کوئی شخص کسی مرض سے شفا پاجائے تو بطور شکرانہ وہ جانور ذبح کرکے اس کا گوشت تقسیم کرسکتا ہے۔ فقہاے کرام نے اسے جائز قرار دیا ہے۔ اس سلسلے میں متعدد فتاویٰ موجود ہیں۔
شیخ محمد صالح المنجد عالم اسلام کے مشہور فقیہ اور مفتی ہیں۔ انٹرنیٹ پر Islamqa کے نام سے موجود سائٹ پر ان کے فتاویٰ موجود ہیں۔ فتویٰ نمبر 107549 کے مطابق ایک شخص نے یہ سوال کیا تھا: میرا چچازاد ایک حادثے میں زخمی ہوگیا ہے اور ڈاکٹروں کے مطابق اس کے بچنے کی 50فی صد امید ہے۔ ہمیں کسی نے نصیحت کی کہ ایک بکری اللہ کے لیے ذبح کردو، تو کیا ہمارے لیے ایسا کرنا جائز ہوگا؟

اس کا انھوں نے یہ جواب دیا: ’’اگر اللہ کے لیے ذبح کرنے کے بعد اس گوشت کے کچھ حصے کو فقرا اور مساکین میں تقسیم کرنا مقصود ہوتو اس میں کوئی حرج نہیں۔ رسولؐ سے مروی ہے کہ آپؐ نے فرمایا: اپنے مریضوں کا علاج صدقہ سے کرو۔ ابودائود نے اسے مراسیل میں ذکر کیا ہے اور طبرانی اور بیہقی وغیرہ نے اسے متعدد صحابہ کرامؓ سے روایت کیا ہے۔ اس کی تمام تر اسانید ضعیف ہیں، جب کہ البانیؒ نے اسے ترمذی (744) میں حسن لغیرہ قرار دیا ہے۔ آگے انھوں نے دو فتاویٰ بھی نقل کیے ہیں۔

دائمی کمیٹی براے فتویٰ کے علماے کرام سے پوچھا گیا کہ حدیث: اپنے مریضوں کا علاج صدقہ سے کرو۔ کا مطلب سمجھا دیں، جسے بیہقی نے السنن الکبریٰ (3382) میں بیان کیا ہے، لیکن اکثر محدثین کرام مریض کا علاج جانور کو ذبح کرنے کے حوالے سے اسے ضعیف قرار دیتے ہیں، تو کیا مریض سے مصیبت ٹالنے کے لیے ایسا کرنا درست ہے یا نہیں؟
اس سوال کا انھوں نے یہ جواب دیا: ’’مذکورہ حدیث درست نہیں ہے، لیکن مریض کی جانب سے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے اور شفایابی کی اُمید رکھتے ہوئے صدقہ کرنے میں کوئی حرج نہیں، اس لیے کہ صدقے کی فضیلت میں بہت سے دلائل موجود ہیں اور صدقے سے گناہ مٹا دیے جاتے ہیں اور بری موت سے انسان دور ہوجاتا ہے‘‘۔ (فتاویٰ اللجنۃ الملدائمۃ)

شیخ ابن جبرینؒ کہتے ہیں: ’’صدقہ مفید اور سودمند علاج ہے۔ اس کے باعث بیماریوں سے شفا ملتی ہے اور مرض کی شدت میں کمی بھی واقع ہوتی ہے۔ اس بات کی تائید رسولؐ کے فرمان کہ ’’صدقہ گناہوں کو ایسے مٹادیتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھا دیتا ہے‘‘ سے ہوتی ہے۔ اسے احمد (3399) نے روایت کیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ مرض گناہوں کی وجہ سے سزا کے طور پر لوگوں کو لاحق ہوجاتے ہوں، تو جیسے ہی مریض کے ورثا اس کی جانب سے صدقہ کریں تو اس کے باعث اس کا گناہ دھل جاتا ہے اور بیماری جاتی رہتی ہے، یا پھر صدقہ کرنے کی وجہ سے نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں، جس سے دل کو سکون اور راحت حاصل ہوتی ہے اور اس سے مرض کی شدت میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔(الفتاویٰ الشرعیۃ فی المسائل الطبیۃ)

آخر میں شیخ المنجد نے لکھا ہے: ’’چنانچہ اللہ کے لیے ذبح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس قربانی کا مقصد مریض کی جانب سے شفا کی امید کرتے ہوئے صدقہ کرنا ہے، جس سے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے شفا دے گا‘‘۔
ہندوستان کے مشہور فقیہ اور مفتی مولانا خالد سیف اللہ رحمانی سے دریافت کیا گیا: اگر کوئی شخص بیمار پڑا تو اس کے گھر والے اس کے اچھے ہونے کے بعد جان کی زکوٰۃ میں بکرا ذبح کرتے ہیں۔ یہ گوشت گھر والے کھاسکتے ہیں یا نہیں؟

انھوں نے جواب دیا: ’’اگر صحت مند ہونے سے پہلے نذر مانی ہو کہ صحت حاصل ہونے پر میں بکرا ذبح کروں گا تو یہ نذر کی قربانی ہے۔ یہ ان لوگوںکو کھلایا جاسکتا ہے جن کو نذر ماننے والا زکوٰۃ دے سکتا ہو۔ اور اگر پہلے سے نذر نہیں مانی تھی، بلکہ صحت مند ہونے کے بعد اظہار مسرت کے لیے قربانی کی تو یہ شکرانہ کی قربانی ہے۔ اس کا گوشت خود بھی کھاسکتا ہے اور دوسرے اہل تعلق کو بھی کھلایا جاسکتا ہے۔ (کتاب الفتاویٰ)

پاکستان کی مشہور درس گاہ جامعۃ العلوم الاسلامیہ، بنوری ٹائون، کراچی کے مفتی مولانا محمد انعام الحق قاسمی نے لکھا ہے: ’’مریض کی صحت کی نیت سے خالص اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے لیے کوئی جانور ذبح کرنا جائز ہے، البتہ زندہ جانور کا صدقہ کردینا زیادہ بہتر ہے‘‘۔ (قربانی کے مسائل کا انسائی کلو پیڈیا)

خلاصہ یہ کہ کوئی شخص کسی جان لیوا حادثے سے بچ جائے یا کسی موذی مرض سے شفا پاجائے تو اس کے بعد اس کا کسی جانور کا خون بہانے کو کارِ ثواب سمجھنا اور اسے جان کی حفاظت کا بدلہ قرار دینا تو غلط ہے، لیکن بطور شکرانہ زندہ جانور کو صدقہ کرنا یا اسے ذبح کرکے اس کا گوشت صدقہ کرنا دونوں صورتیں درست ہیں۔