مزید خبریں

شہباز حکومت نے صرف قرضے لیے، ملک دیوالیہ ہو چکا ہے

لاہور (رپورٹ: حامد ریاض ڈوگر) شہباز حکومت نے صرف قرضے لیے، ملک دیوالیہ ہو چکا ہے‘ بھارت چاند پر قدم رکھ چکا، ہمارے حکمران2 وقت کی روٹی بھی چھین رہے ہیں‘ ہر روز عوام پر بجلی اور پیٹرول کے ڈرون حملے کیے جا رہے ہیں‘ نگراں حکمران بھی سابق پالیسی پرہی عمل پیرا ہیں‘مسئلہ آئی ایم ایف کی شرائط نہیں اسٹیبلشمنٹ کا ہے۔ ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی وسطی پنجاب کے امیر مولانا محمد جاوید قصوری، ممتاز سیاسی تجزیہ نگار، کالم نویس سلمان عابد اور مزدور رہنما ریلوے سودا کار یونین ’پریم‘ کے مرکزی صدر شیخ محمد انور نے ’’جسارت‘‘ کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے؟ ‘‘مولانا محمد جاوید قصوری کا کہنا تھا کہ پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ ہماری معیشت کے سر پر تلوار کی طرح مسلسل لٹک رہا ہے، پی ڈی ایم حکومت نے ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا، حکومتی اخراجات کم کرنے پر توجہ دی نہ اشرافیہ کی عیاشیاں کم کی گئیں، عدالتی حکم کے باوجود سودی نظام ختم کیا نہ طرز حکومت میں سادگی اختیار کی گئی بلکہ سارا زور مزید قرض لینے پر صرف کیا گیا اور قرض ملنے پر خوشی کے شادیانے بجائے گئے حالانکہ قرض ملنے کے باوجود پاکستانی معیشت تنزلی کا شکار اور روبہ زوال ہے۔ بدقسمتی سے نگراں حکمران بھی پی ڈی ایم حکومت کی پالیسیوں ہی پر عمل پیرا ہیں اور یہ حقیقت سمجھنے پر تیار نہیں کہ عالمی ساہو کار سے قرض لے کر کام چلاتے رہنے سے کسی ملک کے لیے ترقی کا راستہ نہیں کھل سکتا، ملکی معیشت کو دلدل سے نکالنے کے لیے ایسی حکومت کا قیام ضروری ہے، جو طرز حکومت تبدیل کرے، معیشت کو سود سے پاک کرے اور بہتر حکمرانی کے ساتھ ساتھ ہر سطح پر سادگی اور کفایت شعاری کو فروغ دے۔ سلمان عابد نے بتایا کہ پاکستان کی معاشی صورتحال کسی طرح بھی قابل اطمینان نہیں اور معیشت کی بہتری کے امکانات بھی دور دور تک دکھائی نہیں دیتے۔ سابق حکومت اگرچہ یہ دعویٰ کرتی رہی ہے کہ ملک دیوالیہ ہونے سے بچ گیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ملک نہیں صرف طاقتور طبقات بچے ہیں ورنہ عام آدمی تو دیوالیہ ہو چکا ہے جو مہنگائی بے روز گاری اور حالات کی ناساز گاری سے گھبرا کر خود کشی پر مجبور ہو چکا ہے، حکمران بیرونی سرمایہ کاری کی باتیں کرتے ہیں مگر پاکستانی سرمایہ کار یہاں کے حالات دیکھ کر ملک سے بھاگ رہے ہیں، ملک کی افرادی قوت تیزی سے نقل مکانی کر رہی ہے، حکمرانوں کے معیشت درست کرنے کے دعوے جذباتی نعروں سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے، معدنی وسائل سے استفادہ کی باتوں میں گہرائی موجود نہیں۔ آئی ایم ایف کی سخت شرائط کا رونا رویا جا رہا ہے مگر مسئلہ ان شرائط کا نہیں، اشرافیہ کا ہے، جنہیں عام آدمی کی مشکلات کا قطعی احساس نہیں، ابھی تک حکمرانوں کی طرف سے ملکی معیشت کی بہتری کا کوئی سنجیدہ اشارہ نہیں ملا، معاشی استحکام سیاسی استحکام کے بغیر ممکن نہیں مگر اس جانب کسی کی توجہ نہیں، اداروں کے مابین ٹکرائو اور بدلے کی آگ سے باہر نکل کر بات چیت کا راستہ اختیار کرنا ہو گا‘ سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں کو تلخیاں فراموش کر کے کم سے کم ایجنڈے پر متفق ہونا پڑے گا ورنہ اگر موجودہ طرز عمل جاری رہا اور مہم جوئی کا رویہ ترک نہ کیا گیا تو معاملات مزید خراب ہوں گے اور بیرونی سرمایہ کاری بھی نہیں ہو گی کیونکہ جو سرمایہ آ رہا ہے وہ بھی کرپشن کی نذر ہو رہا ہے۔ شیخ محمد انور نے رد عمل دیا کہ ملک دیوالیہ ہو چکا ہے، اب کیا کسر باقی رہ گئی ہے، ہر چیز عام آدمی کی پہنچ سے باہر جا چکی ہے، ہمارا دشمن ہمسایہ بھارت چاند پر قدم رکھ چکا ہے مگر ہمارے حکمران لوگوں سے 2 وقت کی روٹی کا حق بھی چھین رہے ہیں ‘ہر روز عوام پر بجلی اور پیٹرول کے ڈرون حملے کیے جا رہے ہیں‘ لوگ تنگ آمد بجنگ آمد، آئے دن واپڈا اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے دفاتر پر حملہ آور ہو کر توڑ پھوڑ کر رہے ہیں، حالات سول نافرمانی کی طرف جا رہے ہیں، سرکاری ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی نہیں کی جا رہی‘ نجی شعبے کے کارکنوں کے حالات ان سے بھی دگر گوں ہیں، لوگوں کے پاس احتجاج کے لیے سڑکوں پر آنے یا بچوں سمیت خودکشی کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا۔ حکمرانوں نے اگر ہوش کے ناخن نہ لیے تو وہ دن دور نہیں جب عوام کے ہاتھ ان کے گریبانوں تک پہنچ جائیں گے۔