مزید خبریں

عمران خان کو ووٹ کے بجائے ریاستی طاقت سے شکست دی جارہی ہے

لاہور (رپورٹ: حامد ریاض ڈوگر) عمران خان کو ووٹ کے بجائے ریاستی طاقت سے شکست دی جا رہی ہے‘ اسٹیبلشمنٹ الیکٹیبلز کے ذریعے عمران خان کی طاقت کو توڑ رہی ہے‘1970ء کے انتخابات بھی منصفانہ نہیں تھے، مولانا مودودیؒ کو ڈھاکا جانے اور انتخابی مہم تک چلانے نہیں دی گئی‘ بھٹو، نواز، بینظیر، عمران و دیگر حکمران فوجی اشرافیہ کی وجہ سے ہی اقتدار میں آئے‘ عوام ووٹ دیتے رہے اسٹیبلشمنٹ فیصلہ کرتی رہی۔ ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل امیر العظیم، استقلال پارٹی پاکستان کے چیئرمین سید منظور علی گیلانی ایڈووکیٹ اور ممتاز دانشور کالم نویس اور ٹی وی میزبان سجاد میر نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا عمران خان کو ووٹ کے بجائے ریاستی طاقت سے شکست دی جا رہی ہے؟‘‘ امیر العظیم نے کہا کہ عمران خان اپنی کمزوریوں اور غلطیوں کی سزا بھگت رہے ہیں‘ پاکستان میں ووٹ کی طاقت کبھی کسی سیاسی جماعت کے پاس نہیں رہی‘ ووٹ کے بجائے ان کے پاس الیکٹیبلز ہوا کرتے ہیں جو بظاہر کہیں بھی ہوں، کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہوں، طاقت ان الیکٹیبلز کی ہوا کرتی جن کو ریاستی ادارے کٹھ پتلیوں اور آلہ کار کے طور پر استعمال کرتے ہیں‘ ریاستی اداروں نے
جب کسی سیاسی رہنما کو انعام دینا ہوتا ہے تو یہ کٹھ پتلیاں اس کی جھولی میں ڈال دی جاتی ہیں اور جب کسی سے انتقام لینا ہوتا ہے تو بھی یہی آلہ کار لوگ کام میں لائے جاتے ہیں، پاکستان کی سیاست کی الف سے لے کر یے تک، یہی فارمولا کام میں لایا جاتا رہا ہے‘ آج بھی ریاستی اشرافیہ یہی حربہ آزما رہی ہے جو کل عمران خان کے حق میں استعمال کیا گیا تھا، آج وہی اس کے خلاف استعمال ہو رہا ہے۔ منظور علی گیلانی ایڈووکیٹ نے کہا کہ پاکستان میں 7 اکتوبر 1958ء کے مارشل لا کے بعد سے آج تک کوئی بھی حکمران آیا ہو، وہ خواہ کتنے ہی عوام اور جمہوریت کے راگ الاپے، چاہے وہ عمران خان ہوں، چاہے نواز شریف اور بے نظیر بھٹو ہوں یا پھر بے نظیر کے والد ذوالفقار علی بھٹو ہوں‘ ان میں سے کوئی بھی حکمران عوام کے ووٹ سے اقتدار کی منزل تک نہیں پہنچا، یہاں کی ہر حکومت فوجی اشرافیہ کی سرپرستی کی مرہون منت رہی ہے، بظاہر انتخابات بھی ہوتے رہے، عوام اپنی رائے بھی دیتے رہے مگر فیصلہ اشرافیہ کی مرضی سے ہوتا رہا اور پھر ان تمام حکمرانوں کا انجام بھی ان ہی کے ہاتھوں دیکھا گیا۔ 1970ء کے انتخابات بھی قطعی آزادانہ نہیں تھے، مولانا مودودیؒ کو ڈھاکا جانے اور انتخابی مہم تک چلانے کی اجازت نہیں دی گئی‘ حکومت اور اشرافیہ اس سازش کا باقاعدہ حصہ تھی‘ نوابزادہ نصر اللہ خان اور ائر مارشل اصغر خان کو بھی یحییٰ خان کے حکم سے روکا گیا‘ اب بھی حالات میںکوئی فرق نہیں آیا، عمران خان کو جس طرح اگست 2018ء میں وزیراعظم بنایا گیا اسی طرح اپریل 2022ء میں گھر بھیج دیا گیا۔ ریاست کی طاقت اگر کسی کے حق میں استعمال ہو تو ٹھیک اور اگر اس کے برعکس ہو جائے تو غلط۔ اگرچہ یہ زیادتی ہے، اداروں کو سیاست میں دخل نہیں دینا چاہیے‘ عدلیہ، افواج، بیورو کریسی اور دیگر اداروں کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے مگر تعلق ہے۔ سجاد میر نے کہا کہ نظر تو یہی آتا ہے کہ عمران خان کو ووٹ کے بجائے ریاستی طاقت کے ذریعے سیاست سے الگ کیا جا رہا ہے اور مسلسل دیوار سے لگانے کا سلسلہ جاری ہے، اس مقصد کے لیے ذرائع ابلاغ کی آزادی بھی سلب کر لی گئی ہے اور ان کا بالکل یکطرفہ استعمال کیا جا رہا ہے مگر دوسری جانب حالات کے اس پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ 9 مئی کو جو کچھ ہوا، اس کے ذمے داروں کو سزا دیے بغیر بھی نہیں چھوڑا جا سکتا، یہ ملکی سلامتی کا معاملہ ہے اور اگر 9 مئی کی صورت حال کو یوں ہی جانے دیا گیا تو اس کے آئندہ ملکی سالمیت پر تباہ کن اثرات ہو سکتے ہیں۔