مزید خبریں

کرناٹک میں کانفرنس کی کامیابی کو بی جے پی کا زوال قرار نہیں دیا جاسکتا

لاہور (رپورٹ: حامد ریاض ڈوگر)کرناٹک میں کانگریس کی کامیابی کو بی جے پی کا زوال قرار نہیں دیا جا سکتا‘ مودی نے بھارت میں ہندوانتہا پسندانہ سوچ کو بہت مضبوط کردیا ہے ایک آدھ ریاست نکل جانے سے بی جے پی کو فرق نہیں پڑتا‘ دنیا بھر میں بھارتی سیاست پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں‘ بی جے پی مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے اور دورہ امریکا میں حاصل کی گئی کامیابی کو الیکشن میں کیش کرائے گی‘ بی جے پی کا زوال شروع ہوگیا۔ ان خیالات کا اظہار روزنامہ ’’دنیا‘‘ کے گروپ ایڈیٹر اور ممتاز تجزیہ کار سلمان غنی، جماعت اسلامی کے شعبہ بین الاقوامی امور کے ڈپٹی ڈائریکٹر پروفیسر محمد ایوب منیر اور سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ لاہور کے سابق چیف آفیسر شعبہ تعلقات عامہ اور ’’اومیگا نیوز‘‘ کے گروپ ایڈیٹر ڈاکٹر سید ندیم الحسن نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کرناٹک میں بی جے پی کی شکست کے کیا اثرات رونما ہوںگے؟‘‘ سلمان غنی نے کہا کہ کرناٹک میں کانگریس کی کامیابی اگرچہ بھارتی سیاست میں ایک نمایاں تبدیلی ہے تاہم اسے بی جے پی کا زوال قرار نہیں دیا جا سکتا اس لیے کہ بی جے پی، خصوصاً نریندر مودی نے ہندوانتہا پسندانہ سوچ اور ہندو شدت پسندی کو بھارتی سیاست میں اس قدر غالب کر دیا ہے کہ ایک آدھ ریاست میں شکست کا مطلب قطعاً پورے بھارت میں بی جے پی کا زوال نہیں ہے، عالمی سطح
پر یقیناً بی جے پی کی سیاست پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں جس کی ایک مثال سابق امریکی صدر باراک اوباما کا یہ بیان ہے کہ بھارت میں اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے ساتھ ناروا ظالمانہ طرز عمل بھارت کی شکست و ریخت کا باعث بن سکتا ہے مگر دوسری طرف مودی، بائیڈن ملاقات کے بعد جاری کیا گیا اعلامیہ اگرچہ خود امریکا کے مفادات کی عکاسی کر رہا ہے مگر بھارتی وزیر اعظم مودی بھی بجا طور پر اسے اپنی کامیابی کے طور پر پیش کر رہے ہیں، اس طرح بی جے پی اور مودی نے جس تیزی سے بھارت کو ایک سیکولر ریاست سے ہندو ریاست میں تبدیل کیا ہے اور بھارتی ہندو اکثریت کو اپنا ہمنوا بنایا ہے اس کے پیش نظر کرناٹک کے انتخابات میں بی جے پی کی ناکامی کو بھارت میں بی جے پی کے زوال کا پیش خیمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ محمد ایوب منیر نے بتایا کہ بی جے پی اگرچہ سیاسی لحاظ سے خاصی کمزور ہوئی ہے مگر 5 اگست 2019ء کے اقدام کے ذریعے جس طرح کشمیر کی جداگانہ شناخت ختم کر کے اسے بھارت میں ضم کیا گیا ہے، اس کا بی جے پی کو آئندہ انتخابات میں بہت فائدہ ہو گا۔ اسی طرح وزیر اعظم مودی کے حالیہ دورہ امریکا میں بھارت نے جو سیاسی و معاشی اور سفارتی مفادات حاصل کیے ہیں، بی جے پی انہیں بھی کیش کرائے گی، کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے بھی اگرچہ عوام میں خاصی پذیرائی حاصل کی ہے مگر صرف کرناٹک میں کانگریس کی انتخابی کامیابی کو بی جے پی کا زوال سمجھنا فی الحال قبل از وقت ہو گا۔ سید ندیم الحسن نے کہا کہ کرناٹک میں بی جے پی کی انتخابی شکست یقیناً بی جے پی کے لیے ایک بہت بڑا جھٹکا ہے اور اسے اس کے زوال کی جانب پیش رفت قرار دیا جا سکتا ہے، انسانی حقوق کے حوالے سے بھارت دنیا بھر میں ہدف تنقید بنا ہوا ہے اور بھارتی وزیر اعظم مودی کا گھنائونا کردار ان کی حکومت کی بین الاقوامی برادری میں بد نامی کا باعث ہے، تبدیلی چونکہ ملک کے اندر ہی سے آنی ہے اس لیے کرناٹک میں کانگریس کی زبردست کامیابی اس بات کی علامت ہے کہ بھارت کے عوام بی جے پی کی انتہا پسندانہ سیاست سے اکتا چکے ہیں اور ملک کو عالمی سطح پر مزید بدنامی سے بچانے کے لیے اب بی جے پی سے نجات چاہتے ہیں۔