مزید خبریں

آمریت کی پیداوار اور قیادت خاندان تک محدود ہونے سے ن لیگ‘ پی پی ‘ پی ٹی آئی میں جمہوریت نہیں

لاہور (رپورٹ: حامد ریاض ڈوگر)آمریت کی پیداوار اور قیادت خاندان تک محدود ہونے سے ن لیگ‘ پی پی ‘ پی ٹی آئی میں جمہوریت نہیں ‘ تینوں سیاسی جماعتیں کم اور نجی کمپنیاں زیادہ لگتی ہیں ‘ ان کا کوئی منشور اور دستور نہیں‘ سیاسی قائدین نے جوابدہی سے بچنے کے لیے اپنی جماعتوں میں شخصیت پرستی کو فروغ دیا‘ با ربارفوجی مداخلت، جاگیردارانہ نظام، کرپشن اور پیسے کے لین دین نے سیاسی و جمہوری عمل کو نقصان پہنچایا ۔ ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی وسطی پنجاب کے امیر مولانا محمد جاوید قصوری، لاہور ہائی کورٹ بار کے سابق صدر ذوالفقار چودھری ایڈووکیٹ اور ممتاز سیاسی تجزیہ نگار سلمان عابد نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’نواز لیگ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف جمہوری جماعتیں کیوں نہیں ہیں؟‘‘ مولانا محمد جاوید قصوری نے کہا کہ نواز لیگ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے نام اگرچہ بظاہر الگ الگ ہیں مگر کردار، انداز حکمرانی اور سیاسی کلچر کے اعتبار سے تینوں میں کوئی فرق نہیں، جیسے انڈیا کہیں، بھارت یا ہندوستان، تینوں ناموں سے ایک ہی قوم ذہن میں آتی ہے‘ اسی طرح بڑی ہونے کی دعویدار تینوں سیاسی جماعتوں کے نام اگرچہ الگ الگ ہیں مگر اسلوب سیاست اور طرز حکمرانی تینوں کا یکساں ہے، تینوں ملک میں جمہوریت کی چیمپئن ہیں مگر اپنے اندر جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں رکھتیں، اسی طرح تینوں کا نہ کوئی دستور ہے نہ منشور مگر ملک میں آئین اور قانون کی علمبردار ہیں‘ تینوں تقریروں کی حد تک کرپشن کی شدید مخالف ہیں مگر اقتدار میں آ کر اس کے خاتمے کے بجائے فروغ کے لیے کام کرتی ہیں، اسی طرح تینوں غربت کے خاتمے کا نعرہ لگاتی ہیں مگر حکومت ملے تو جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور وڈیروں کے مفادات کا تحفظ کرتی ہیں‘ تینوں در اصل قول و فعل کے تضادات کا مجموعہ ہیں، ان کے ہوتے ہوئے ملک و قوم کے دن نہیں بدل سکتے‘ ضرورت ہے کہ عوام ایسی جماعت پر اعتماد کا اظہار کریں جن کے اندر جمہوریت ہو، جو آئین اور منشور کی پابند ہو، اس حوالے سے دیکھا جائے تو صرف جماعت اسلامی ہی ایسی جماعت ہے جو اعلیٰ کردار، جمہوریت پر عمل پیرا ہے، احتساب اور خدمت کی منفرد مثال ہے جو جاگیرداروں اور خاندانی قیادت سے پاک ہے‘ اس لیے صرف جماعت اسلامی ہی ملک و قوم کو موجودہ بحران اور دلدل سے نکال سکتی ہے۔ ذوالفقار چودھری نے کہا کہ ملک کی بدقسمتی ہے کہ ان تینوں میں سے کوئی ایک بھی سیاسی جماعت کی تعریف پر پوری نہیں اترتی، مسلم لیگ کا تو اصل نام ہی ’’موسم لیگ‘‘ ہے کیونکہ یہ مو سم کے ساتھ موقف اور کردار تبدیل کرتی رہتی ہے، فی الحقیقت یہ تینوں سیاست کی نہیں آمروں کی پیدا کردہ جماعتیں ہیں اور ون مین شو پر یقین رکھتی ہیں ان میں جماعتوں کے اندرونی انتخابات کا کوئی تصور تک موجود نہیں صرف سربراہ اور اس کے خاندان کی مرضی چلتی ہے، جماعت اسلامی کے سوا اس وقت کوئی بھی جماعت جمہوری سیاسی جماعت کہلانے کی حق دار نہیں جب ان کے اندر جمہوریت نہیں تو یہ ملک میں جمہوریت کا دعویٰ کیسے کر سکتی ہیں‘ تینوں میں سے کسی کی بھی یونین کونسل سے لے کر ملکی سطح تک کوئی تنظیم موجود نہیں، نیچے سے اوپر تک شخصی حکمرانی اور وراثت میں قیادت منتقل ہوتی چلی جاتی ہے اس لیے انہیں جمہوری ہی نہیں بلکہ سیاسی جماعت بھی تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ سلمان عابد نے کہا کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا المیہ ہے کہ یہاں کی سیاسی جماعتیں داخلی طور پر جمہوری جماعتیں نہیں بن سکیں، جس کی بڑی وجوہ بار بار کی فوجی مداخلت، سیاسی جماعتوں کا جاگیردارانہ پس منظر، موروثی قیادت اور پیسے کا لین دین ہے جس کی وجہ سے یہ جماعتیں نہ تو تنظیم سازی کر سکیں اور نہ ہی داخلی جمہوریت کے معاملات شفاف انداز میں چلا سکیں‘ آج بھی سخت سے سخت ناقد یہ تسلیم کرتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے جمہوری ڈھانچے کو دیکھیں تو جماعت اسلامی ان میں سب سے بہتر نظر آتی ہے‘ باقی تمام جماعتیں جمہوریت کے بجائے آمرانہ اقدامات کا سہارا لیتی ہیں، یہ اس لیے بھی اپنی جماعتوں میں جمہوریت کو مستحکم نہیں ہونے دیتیں کیونکہ ایسا ہوا تو انہیں کارکنوں کے سامنے جوابدہ ہونا پڑے گا، یہ جماعتوں کو اپنے خاندان تک محدود رکھ کر کارکنوں کو شخصیت پرستی پر لگائے رکھتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کا مقدمہ کمزور ہے اور کسی مشکل وقت میں سیاسی جماعتوں کا مضبوط اور ٹھوس کردار نظر نہیں آتا، تینوں بڑی جماعتوں کا المیہ یہ ہے کہ جب بھی موقع ملا انہوں نے جمہوریت پر شب خون مارا، یہ پس پردہ اشرافیہ سے رابطے رکھتی ہیں اور مخالفین کے خلاف کندھا مہیا کرتی ہیں، یہ تینوں سیاسی جماعتیں کم اور محدود نجی کمپنیاں زیادہ لگتی ہیں، نظریاتی سیاست اب دفن ہو چکی‘ اب کاروباری سیاست ہے جو پیسے، اقربا پروری، تعلقات، برادری اور خاندان کی بنیاد پر ہے اسی لیے سیاسی جماعتوں کا جمہوری کردار بہت زیادہ مضبوط دکھائی نہیں دیتا جس کا فائدہ غیر سیاسی قوتیں اٹھاتی ہیں۔