مزید خبریں

حکمراں طبقہ طلبہ یونین کے ذریعے نئی سیاسی قیادت کو ابھرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا

لاہور (رپورٹ: حامد ریاض ڈوگر)حکمران طبقہ طلبہ یونین کے ذریعے نئی سیاسی قیادت کو ابھرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا ‘ افسرشاہی ، جاگیردار اور سرمایہ دار طلبہ ومزدور یونین کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں‘سیاسی جماعتوں میں جمہوریت نہیں ‘ قیادت وراثت کے طور پر وصیت کے ذریعے منتقل ہوتی ہے‘ اسٹیبلشمنٹ جمہوریت کو پھلتے پھولتے دیکھنا نہیں چاہتی اور اپنی مرضی کی قیادت مسلط رکھنا چاہتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی لاہور کے امیر ضیا الدین انصاری، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق سیکرٹری اسد منظور بٹ ایڈووکیٹ اور اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے معتمد عام اسد علی قریشی نے ’’جسارت‘‘ کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’طلبہ یونین پر پابندی کیوں ختم نہیں ہوتی؟‘‘ ضیا الدین انصاری ایڈووکیٹ نے کہا کہ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ نہیں چاہتا کہ قومی سطح پر عوام میں سے قیادت ابھر کر سامنے آئے‘ طلبہ یونین کے انتخابات ملک اور قوم کے مفاد میں از بس ضروری ہیں کیونکہ ان کے ذریعے نئی نسل میں جمہوری فکر اور سوچ پروان چڑھتی ہے اور قوم کو متوسط طبقہ سے باصلاحیت اور باکردار قیادت ملتی ہے مگر ہماری اشرافیہ جمہوریت کو پھلتے پھولتے دیکھنا نہیں چاہتی اور اپنی مرضی کی قیادت مسلط رکھنا چاہتی ہے، خود سیاسی جماعتوں کے اندر بھی جمہوریت موجود نہیں اور ان میں قیادت وراثت میں وصیت اور نصیحت کے ذریعے منتقل ہوتی ہے اس لیے وہ یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ عوام میں سے حقیقی قیادت اوپر آ کر ان کے لیے چیلنج بنے چنانچہ ملک پر حکمران اشرافیہ، جاگیردار اور سرمایہ دار طلبہ یونین کے انتخابات کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے اس کے راستے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ اسد منظور بٹ نے کہاکہ طلبہ یونین پر پابندی کا ملک کو بہت زیادہ نقصان برداشت کرنا پڑا ہے کیونکہ اس پابندی نے ملک میں باکردار، صالح، دیانتدار اور باصلاحیت قیادت کے ابھرنے کا راستہ روک دیا ہے، اس پابندی کے باعث طلبہ تنظیمیں بھی اپنا وجود کھو چکی ہیں صرف اسلامی جمعیت طلبہ، نامساعد حالات کے باوجود اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے، انتخابات کا ماحول تعلیمی اداروں میں ختم ہونے کے بعد جو مقامی سطح کی سوسائٹیز بنائی گئی ہیں‘ وہ ملک گیر سطح پر کوئی کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں، حکمرانوں کو اس عظیم نقصان کا احساس ہی نہیں اور وہ دیگر مسائل میں الجھے ہوئے ہیں‘ طلبہ اور مزدور یونینوں کے انتخابات کے ذریعے چونکہ عوام میں سے نمائندے ابھر کر سامنے آئے تھے اس لیے اشرافیہ اور بیورو کریسی بھی ان کی بحالی نہیں چاہتی۔اسد علی قریشی نے کہا کہ 9 فروری 1984ء کو طلبہ یونین پر پابندی عاید کی گئی جس کو اب 39 برس مکمل ہو چکے ہیں، اسلامی جمعیت طلبہ مسلسل اس پابندی کے خاتمے کے لیے کوششیں کر رہی ہے‘ احتجاج بھی کیا جاتا ہے اور عدالت عظمیٰ میں 1991-92ء میں اس پابندی کے خلاف کیس بھی کیا گیا، ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے طلبہ یونین کی بحالی کا حکم بھی جاری کر دیا، اس کے علاوہ سینیٹ میں بھی جب رضا ربانی چیئرمین تھے تو بل منظور کیا گیا کہ طلبہ یونین کے انتخابات فوری طور پر کروائے جائیں اسی طرح سندھ اسمبلی میں بھی فروری2022ء میں قانون سازی کی گئی اور تمام جامعات سے کہا گیا کہ وہ 3 ماہ میں طلبہ یونین کے انتخابات کے لیے قواعد و ضوابط مرتب کریں مگر اپریل میں ملکی صورت حال تبدیل ہو گئی اور یہ معاملہ پھر سرد خانے میں چلا گیا ہم ہر سال طلبہ یونین کی بحالی کا دن بھی مناتے ہیں۔ آئینی اور قانونی طور پر انتخابات میں اب کوئی رکاوٹ موجود نہیں‘ صرف حکومتوں کی نا اہلی اور بدنیتی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔