مزید خبریں

کھیلوں میں زوال کی بڑی وجہ فیڈریشنوں میں سیاسی طور پر نااہل افراد کا تقرر ہے

(رپورٹ: سید وزیر علی قادری)پاکستان میں کھیلوں کے زوال کی بڑی وجوہات فیڈریشنوں میں سیاسی بھرتیاں‘ اقرباپروری‘ غیر پروفیشنل افراد کو بورڈ کی سربراہی سونپنا‘وسائل کی کمی‘بدعنوانی‘ ایک دوسرے کے مدمقابل فیڈریشنز کاقیام‘گراس روٹ لیول پر کھیلوں کی عدم سرپرستی ‘میرٹ کاقتل‘ڈیجیٹل میڈیا ‘سوشل میڈیا کے بے تحاشااستعمال نے بھی بچوںاورنوجوانوں کو کھیلوں کے میدان سے دور کردیا ہے‘ کھیلوں کے میدانوں کی عدم دستیابی‘ ہاؤسنگ اسکیموں میںپارک اور میدانوں کو نظراندازکرنا‘ماہر کوچز کی کمی، اسپانسرز کی عدم دلچسپی، حکومت کی ترجیحات میں کھیلوں خصوصا قومی کھیل ہاکی کا شامل نہ ہونا، طویل وقلیل المدتی پالیسیوں سے اجتناب جس میں اولمپکس، ایشیا کپ، ایشیا گیم، اسلامک گیم، کامن ویلتھ گیم میں شرکت کے تیاری سمیت دیگر عوامل کارفرما ہیں۔ ان خیالات کااظہار کھیلوں کے ماہرین‘ کھلاڑیوں اور تجزیہ کاروں کے پی کے کرکٹ آرگنائزر ، ڈاکٹر روزمن ، ہاکی کی نامور شخصیت کرنل (ر) آصف زمان،ہاکی اولمپئن سلیم ناظم، امان اللہ پنجوانی ، سابق ہاکی کھلاڑی، بانی و اعزازی سیکرٹری جنرل پاکستان انسٹیٹیوٹ آ ف ہاکی کے پروفیسر رائو جاوید اقبال ،بانی چیئرمین پی کیو ایس انٹرنیشنل سید عاصم علی قادری اورسابق ایتھلیٹ شاہین نزہت نے جسارت کے سوال کرکٹ ‘ہاکی اوراسکواش میں پاکستان کے زوال کے اسباب کے جواب میں کیا۔ ڈاکٹر روزمن کا کہنا تھا کہ کرکٹ میں زوال کے اسباب میں اقربا پروری اور کلبوں اور ایسوسی ایشنوں کی جانب سے دباؤ اور اوراہلیت کے مقابلے میں پسند ناپسند کی بنیاد پر ووٹنگ ہے ۔ دوسرا ہاکی کا زوال بھی ایسوسی ایشن ہے‘ اس میں بھی 2 فریق ہر وقت لڑتے رہتے ہیں۔ہاکی ہمارا قومی کھیل ہے اس کو فنڈ ز کی فراہمی بھی بڑا مسئلہ ہے ‘ کھلاڑیوں کایومیہ معاوضہ صرف ایک ہزار روپے ہے۔اگر معاوضہ بہتر کردیا جائے اور کرکٹ کی طرح ہاکی کے کھلاڑیوںکی میڈیا پرحوصلہ افزائی کی جائے تو بہتری آسکتی ہے ہاکی فیڈریشن میں گروہ بندی اوراختلافات بھی ہاکی کی تباہی کی بڑی وجہ ہے ۔ اسکواش کا حال بھی کچھ اچھا نہیں ہے ‘ ایک ہی خاندان ہے جس کا پشاور سے تعلق ہے وہ ہی گاؤں کے رہنے والے اس کھیل کا حصہ ہیں۔ پشاور سے جہانگیر خان جان شیر خان اتلس خان ہاشم خان روشن خان اسکواش کے لیجنڈز پیدا ہوئے اور دنیا میں نام کمایا اب اس کا حال بھی کچھ زیادہ اچھا نہیں۔ پس پردہ اس میں بھی اختلافات نظر آتے ہیں۔اسکواش کی بہتری کے لیے ہر ضلع میں کورٹ بنایا جائے اور کھلاڑیوں کی تربیت کی جائے تو ہم دنیا میں اپنا مقام واپس حاصل کرسکتے ہیں۔کرنل (ر) آصف زمان نے کہا کہہاکی کے زوال کے کئی محرکات ہیں ‘ جن میں ٹریننگ کیمپ کا مستقل نہ ہونا، فنڈز کی کمی، سیاسی مداخلت، میرٹ کا کمزور سسٹم، اسکول کی سطح پر ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام کا نہ ہونا، بہترین صلاحیتوں کے حامل کھلاڑیوں کو نظر انداز کرنا، کوائلی فائڈ کوچز کی کمی، اسپانسرز کی عدم دلچسپی، حکومت کی ترجیحات میں کھیلوں خصوصا قومی کھیل ہاکی کا شامل نہ ہونا، کم اور زائد میعاد پر مبنی پالیسی کا نہ ہونا جس میں اولمپکس، ایشیا کپ، ایشیا گیم، اسلامک گیم، کامن ویلتھ گیم میں شرکت کے تیاری کرنا۔ ہاکی اولمپئن سلیم ناظم کا کہنا تھا کہ تینوں کھیل کرکٹ، ہاکی، اسکواش ہمارے ملک میں کھیلے جاتے ہیں لیکن کرکٹ کو سب سے زیادہ پسند کیا اور دیکھا جاتا ہے‘ جہاں تک ان کھیلوں کے زوال کا معاملہ ہے تو میری نظر میں سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ ان تینوں کھیلوں کو قومی سطح پر قومی کھیل کا درجہ دیا ہی نہیں گیا آپ یقین مانیں کہ ا سکواش تو یہ مخصوص ہے ایک خاص طبقے کے حلقے تک۔ جبکہ کرکٹ اور ہاکی کی جو تنظیمی صلاحیت ہے وہ ضرور سامنے آتی ہے اور خاص کر ہاکی جب تک کسی خاص نظام کے تحت چلتی رہی اس کا معیار اور وقار قائم رہا۔ نظام تھا کیا ؟ اس وقت سخت ایڈمنسٹریشن چلانے والے اور سخت فیصلے کرنے والے تھے اور ایسی قد آور شخصیات کے حامل تھے جن میں ائر مارشل نور خان، کے ایم اظہر فاروق، فیروز خان، ڈاکٹر غلام رسول چودھری ، صادق حسین قریشی ، ضیا الموسی، فاروق عمر ۔ یہ اس طرح کے عہدیدار تھے جو صدر، سیکرٹری جنرل کے عہدوں پر فائز رہے۔ آپ دیکھیں بریگیڈئر منظور حسین عاطف بریگیڈئر عبدالحمید حمیدی ،کرنل مدثر اسی طرح خورشید زمان چودھری محمد ارشد یہ وہ افراد تھے جن کی سیکرٹری شپ ان کی تعلیمی قابلیت کا ا ظہار تھیں۔ میں ذاتی طور پر اس حق میں ہوں کہ جن لوگوں پر بھی بدعنوانی کے الزامات ہیں ان کو خود سے بھی ثابت کرنا چاہیے اور جو حکام بالا ہیں ان کو بھی انجام تک پہنچانا چاہیے اگر ان پر واقعی الزامات ثابت ہوتے ہیں تو اور اگر نہیں ہے تو ان کو باعزت طور پر ان معاملات سے بری کیا جانا چاہیے ان کی ساکھ پر کسی قسم کے سوالات نہیں اٹھنا چاہیے تو بس اسی چکر میں ہماری ہاکی سنبھل نہ سکی۔ ہمارا انفرااسٹرکچر بالکل نہ ہونے کے برابر ہے ۔ اس پر بالکل توجہ نہیں دی گئی ہمارے ٹورنامنٹ جو کم از کم سال میں 15 سے 20 کی تعداد میں ہوتے تھے آل پاکستان ہو رہے تھے جن میں تمام ڈپارٹمنٹس کی ٹیمیں حصہ لیتی رہیں۔ ہمارے قومی ہیروز ان میں کھیلتے تھے۔ اس سے صوبائی ٹیموں کے کھلاڑیوں کو سیکھنے کو کچھ ملتا تھا ۔ کیمپس باقاعدگی سے لگتے تھے ۔ بین الاضلاع اوربین الصوبائی ٹورنامنٹ ہوتے تھے۔ انٹر کالج ٹورنامنٹ ہوتے تھے سلیکشن کمیٹی بڑی فعال ہوتی تھی۔ یہ ساری چیزیں اب ناپید ہوگئی ہیں ۔ صرف ہاکی ہی نہیں تمام کھیلوں کا یہ ہی حال ہے۔ ہاکی کے سابق کھلاڑی امان اللہ پنجوانی نے کہا کہ چند نکات ہیں میرے ذہن میں آ رہے ہیں۔ صرف کرکٹ میں جب سے یہ ون ڈے سیریز شروع ہوئی ہے لوگوں کی دلچسپی تو بہت بڑھ گئی ہے مگر اس سے کھلاڑیوں کا جو فوکس ہے وہ گلیمر کی طرف چلا گیا ہے‘ چھوٹی عمر میں اتنا پیسہ یا مال ان کھلاڑیوں کا دماغ خراب کررہا ہے‘ فٹنس پر بھی اس کے اثرات پڑتے ہیں ۔ اگر دیکھا جائے ہاکی اور اسکواش کا زوال مالی حالت زار اور کرکٹ میں پیسہ زوال کا سبب بن رہا ہے۔ سیاسی طور پر بھرتیاں ، گروہ بندی نے جہاں اور شعبوں کو تباہ کیا ہے وہیں کھیلوں میں اس نحوسیت کے ٹپکنے سے دنیا ئے کھیل میں ہمارے ملک کا نام کسی جیتنے والے ممالک میں نہیں آتا۔ ہمارے زمانے میں نور خان جیسی قد آورشخصیت تھی جس نے کئی فتوحات پاکستان کے نام کرائیں۔ دوسرے سماجی ذرائع ابلاغ کا بے دھڑک استعمال بھی ہماری نوجوان نسل کو کھیل کے میدان سے دور کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ اسے سازش ہی کہا جائے کہ پاکستان کا بچہ نوجوان اسی لت میں پڑ جائے اور کسی بھی لحاظ سے کسی بھی میدان میں آگے نہ بڑھ سکے۔ دوسری اہم بات یہ کہ ایک تو میدان ہی نہیں ہیں دوسرے اسکولوں اور کالجوں یونیورسٹی میں بھی اس قسم کی سہولیات تقریبا نہ ہونے کے برابر ہے۔ حکومت کو چاہیے اس پر فوکس کرے ورنہ نئی نسل ہر لحاظ سے تباہ ہوجائے گی۔کراچی میں تو حال ہی بہت برا ہے۔ جو کچھ دستیاب تھا اسے بھی ٹھیکیداری سسٹم میں دے کر بیڑا غرق کردیا گیا ہے۔ بانی و اعزازی سیکرٹری جنرل پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ہاکی پروفیسر راؤ جاوید اقبال نے جواب میں بتایا کہکھیلوں میں زوال کے بہت سے اسباب ہیں ‘ بغور جائزہ لیں تو ان میں وزارت کھیل اور تعلیم کی 1986میں علیحدگی سے کھیلوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔تعلیمی اداروں میں کھیلوں کا کوٹہ ختم ہوگیا جس کے نتیجے میں بتدریج کھیلوں کی باقاعدہ ٹیمیں ختم ہوتی چلی گئیں محض رسماً کھیلوں کے مقابلے رہ گئے۔ دوسرے تعلیم یافتہ کھلاڑیوں کے فقدان سے ذہانت کی سطح کم ہوگئی‘نتیجہ زوال پزیری کی صورت میں سامنے آیا۔اداروں میں ٹیموں کی بندش سے روزگار کے مواقع منقطع ہو گئے جس سے معاشی آسودگی کھلاڑیوں کے پاس نہیں رہی۔ سوان کی توجہ کھیلوں سے ہٹ کر معاش کے حصول کی طرف منتقل ہوگئی۔ایسوسی ایشنز اور فیڈریشنز کے عہدیداران کا مستقل ہونا بھی زوال کی صورت بنی۔کارکردگی چاہے کچھ بھی ہو بہر صورت عہدے سے چپکے رہنا بھی زوال کا اہم سبب ہے۔نااہل ،غیر پیشہ ورانہ اور سیاسی افراد کا ایسوسی ایشنز اور فیڈریشنز میں عہدیدار ہونا بھی وجہ ہے۔بیک وقت کئی ایسوسی ایشنز اور فیڈریشنز کے عہدوں پر متمکن رہنے سے کسی ایک کھیل سے بھی انصاف نہ کر پائے جس کی وجہ سے بھی کھیلوں پر زوال آیا۔ایسوسی ایشنز اور فیڈریشنز میں باقاعدہ مارکیٹنگ کا شعبہ نہ ہونے سے فنڈز کے حصول میں سخت دشواری بھی ایک وجہ سمجھی جاسکتی ہے۔ ایسوسی ایشنز سے لیکر فیڈریشنز تک احتسابی عمل کا نہ ہونا بھی وجہ قرار پاتی ہے۔ بانی چیئرمین پی کیو ایس انٹرنیشنل سید عاصم علی قادری کا کہنا تھا کہہماری ہاکی ٹیم میں آپ کو پتا ہے کہ بہت ہی اچھے کھلاڑی گزرے ہیں ‘ جہاں تک اسکواش کا معاملہ ہے ہاشم خان اور جان شیر خان جہانگیر خان اس کے علاوہ اور بھی دوسرے جن میں قمر زمان سب نے اپنے اپنے دور میں پاکستان کی نمائندگی کی بلکہ پاکستان کا نام بلند کیا اور دنیا میں چھا گئے۔ لیکن اس کے بعد رفتہ رفتہ زوال پذیر ہو گیا‘ سب سے پہلے میچ فکسنگ، اسپاٹ فکسنگ جیسے ناسور سے کھلاڑیوں کو دور رکھنے کی ترغیب دی جائے اور کسی پر اس کا ثبوت ملنے پر نہ صرف مکمل پابندی لگادی جائے بلکہ اس کا سب کچھ ضبط کرلیا جائے ۔ کھلاڑی ملک کا سفیر ہوتا ہے اس کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے۔کرکٹ میں بال ٹمپرنگ بھی ہو رہی ہے نو بال بھی ہو رہی ہے اور نئے نئے طریقے آگئے ہیں جواریوں کو نوازنے کے لیے۔ یہ سب لعنت والے کام ہیں اس سے دور رکھنے کے لئے کاؤنسلنگ کی ضرورت ہے۔ ان کھلاڑیوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ انہیں اتنی بڑی رقم مل رہی ہے ، پیکج مل رہا ہے ، بھاری بھر کم تنخواہیں اور مراعات مل رہیں ہیں اس کے ہوتے ہویے بھی ان کا گھنائونا کھیل سمجھ سے بالا تر ہے۔ سابق ایتھلیٹ سیدہ شاہین نزہت نے کہا کہزمانہ طالبعلمی میں ہم نے کھبی سوچا بھی نہیں تھا کہ کھیلوں کی دنیا میں کرپشن یا بدعنوانی کا کوئی شائبہ بھی ہوگا‘ بدقسمتی سے اس وقت وہ کونسا کھیل ہے جس میں جوا، میچ فکسنگ، اقراپروری، مال کی ہوس جیسی خرافات موجود نہ ہوں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ لڑکیوں اور خواتین کو محض خانہ پری کے لئے مختلف کھیلوں میں شمولیت کراکر اپنے مقاصد پورے کرلیے جاتے ہیں۔ خواتین اور لڑکیوں کو کھیلنے کے مواقع برابری نہیں تو کم از کم تحفظ ضرور فراہم ہونا چاہیے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ خواتین کی ٹیموں میں تمام شعبوں کے اندر خواتین کو شامل کیا جائے بلکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ان کے مقابلے دیکھنے کے لئے بھی صرف طالبات، لڑکیاں اور خواتین ہی اسٹیڈیم اور جمنازیم میں موجود ہوں۔ اس سے دینی تشخص بھی قائم رہے گا اور امید ہے کہ شریعت کے خلاف یہ کھیلوں کی سرگرمیاں قرار نہیں پائیں گی۔غرض رائے دینے والی شخصیات کا کہنا تھا کہ دنیائے کھیل میں ملک کا نام روشن ہوسکتا ہے ۔ شرط ہے بدعنوانی سے پاک اہل اور میرٹ پر تعیناتی اور حکومت کی سرپرستی۔