مزید خبریں

مزدوروں کا استحصال یا بے جا فائدہ اٹھانا

لوگوں خاص طور پر مزدوروں سے بے جا فوائد لینا یا ان کا استحصال کرنا عام سی بات بن چکی ہے۔ دوکان دار سے کپڑے خریدنے کے چکر میں کپڑوں کے سارے تھان کھلوا کر ناپسندیدگی کا اظہار کرنا عام بات ہے۔ ہم کبھی نہیں سوچتے کہ ہمارے ایک جوڑے کو پسند کرنے کے چکر میں دوکان کے چھوٹے پر کام کا کتنا بوجھ بڑھ گیا ہے۔ دس گلیاں زیادہ گھمانے کے بعد رکشے والے کو اوپر سے سو پچاس نہیں دیتے۔ یہی سو پچاس کسی بھکاری کو دے دیتے ہیں مگر اس مستحق کو نہیں دیتے۔ مزدور سے سارا دن کام لینے کے بعد ایک روپیہ اوپر تو دور کی بات ہے، چائے پانی بھی نہیں پوچھتے ، حالانکہ کام زیادہ ہی لیتے ہیں۔ لیکن فٹ پاتھ پر مفت کا کھانے والوں کی لائن لگی ہو تو اس ادارے( جس نے یہ لائن لگائی ہوتی ہے ) کو بھاری رقم صدقہ کی مد میں ضرور دے دیتے ہیں۔ گھر کی ماسی سے اوپر کے دس دس کام کراتے ہیں مگر رات کا کھانا فریج میں رکھ لیتے ہیں۔ غریب ماسی کے بچے جو اس کے انتظار میں بیٹھے ہوتے ہیں جو اس کو گھر میں داخل ہوتا دیکھ کر پہلا سوال ہی یہ کرتے ہیں کہ ماں آج ہمارے لیے کیا لائی ہو۔ معلوم نہیں بچاری ان کو کیسے مطمئن کرتی ہوگی۔ ہوٹل پر کھانا تو کھاتے ہیں مگر ٹیبل بے حد گندی کر دیتے ہیں اوپر سے بیرے کو کچھ دیتے بھی نہیں۔ سارا دن گارڈ کو دھوپ میں کھڑا کر سکتے ہیں، مگر کبھی اس سے پوچھتے نہیں کہ دور علاقہ غیر میں اس کے چھوٹے چھوٹے بچے کیسے ہیں ، کیا ان کی کوئی ایسی فرمائش یا ضرورت ہے جس کو پورا کرنے کی خواہش نے اسے بے چین رکھا ہے۔ یا اس سے حال نہیں پوچھتے کہ بھائی تم کیسے بیوی بچوں کے بغیر رہ لیتے ہو ، ہم تو دن کا آدھا حصہ بھی مشکل سے گھر کے باہر گزارتے ہیں۔ اسی طرح مجھے کال یا میسج پر گھنٹوں مشورہ کرکے بعد میں کہتے ہیں ہم سوچیں گے کہ آپ کے پاس اپنا کیس لائیں یا نہیں۔ اور پھر صبح کسی اور وکیل کے پاس کھڑے نظر آتے ہیں۔