مزید خبریں

ماہِ رمضان اور قوتِ صبر

رمضان کا مہینہ صبر کا مہینہ ہے۔ انسان کا تعلق انسانوں سے ہے زندگی میں کتنی بار اس طرح کے مراحلے آتے ہیں کہ اس کو دوسروں کی باتوں اور حرکتوں سے ناخو ش گواری اور تکلیف پہنچتی ہے۔ کسی کی طرف سے کوتاہی تو کسی کی جانب سے زیادتی ہوجاتی ہے ایسے موقع پر نامناسب ردعمل سے بچنا صبر ہے۔ زندگی میں بار بار نقصان ہوتے ہیں اور پریشانیاں آتی ہیں، ان پر آدمی شکوہ گلہ نہ کرے اور ہمت نہ ہارے یہ بھی صبر ہے۔ دین اسلام کے احکامات کی ادائیگی میں کبھی دشواریاں پیش آتی ہیں، انھیں برداشت کرنا، رضاے الہی کی خاطر ہر قسم کی دقتوں، مصیبتوں کو جھیلتے ہوئے اپنے موقف پر ڈٹے رہنا بھی صبر ہے۔
روزہ مومن کے اندر صبر وتحمل پیدا کرتا ہے۔ روزے دار کھانے، پینے اور ازدواجی تعلقات سے پورے ایک ماہ تک دن بھر رکا رہتا ہے۔ اپنی خواہشات اور نفسانی ترغیبات پر کنٹرول کر تا ہے، اپنے جذبات کو ضبط میں رکھتا ہے۔ روزے میں لڑنا، جھگڑنا، جھوٹ بولنا، غیبت کرنا، بد نگاہی اور بے شرمی کی باتوں سے اپنے آپ کو بچا کر رکھتا ہے۔ اسی طرح رات میں تراویح اور پھر تہجد میں تھکتا ہے، سحری کے وقت اپنی گہری نیند سے مقابلہ کر تا ہے، اور یہ مقابلہ فجر کی نماز ہونے تک جاری رہتا ہے۔

انسان کی بنیادی ضروریات (1) کھانا پینا (2) سونا اور آرام کرنا (3) جنسی خواہشات کو روکے رکھنے سے انسان کے اندر صبر کا ملکہ پیدا ہوتا ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے فر مایا: روزہ ڈھال ہے، تم میں سے جو روزے دار ہو وہ بدکلامی نہ کرے اور نہ شور شرابا کرے، اگر کوئی اس کو گالی دے یا جھگڑے تو یہ کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔ (بخاری)

صوم کے اصل معنی کسی چیز سے رکے رہنے کے ہیں۔ جو شخص کھانے پینے اور گفتگو کرنے سے رکا رہے اسے عربی میں صائم کہتے ہیں، روزے کے اسی مفہوم کے مطابق روزے میں جہاں روزے دار کھانے پینے سے رکتا ہے، وہیں زبان کے غلط استعمال سے بھی رکتا ہے۔ زبان کی حفاظت، پیٹ کی حفاظت، شرم گاہ کی حفاظت ایسے عمل ہیں جو انسان کو جنت لے جانے والے ہیں۔ سیدنا عقبہ بن عامرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسولؐ اللہ سے ملا قات کی اور عرض کیا: نجات کا ذریعہ کیا ہے آپؐ نے فرمایا: اپنی زبان پر قابو رکھو۔ (احمد، تر مذی)

آپؐ نے یہ بھی فرمایا: جو شخص اپنے دونوں جبڑوں اور اپنی دونوں ٹانگوں کے درمیان کی چیزوں کی ضمانت دے تو میں اس کے لیے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ (بخاری)

نفسانی خواہشوں اور شہوتوں سے مغلوب ہو کر انسان حلال وحرام، حق وناحق صحیح وغلط کی تمیز سے غافل ہو جاتا ہے۔ اس فکر سے آزادی کے بعد انسان کا طرز عمل اسے جہنم کی طرف لے جانے والا ہوجاتا ہے۔ جبکہ حق وناحق میں امتیاز کرتے ہوئے انسان درست عمل اختیار کر تا ہے، حرام اور غلط چیزوں سے بچنے میں صبر کرتا ہے، تکلیف برداشت کرتے ہوئے حق وصداقت کی راہ اختیار کرتا ہے، تو وہ جنت کی راہ پر چل پڑتا ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: دوزخ کی آگ نفسانی مرغوبات سے ڈھانکی گئی ہے اور جنت ان چیزوں سے ڈھانکی گئی ہے جو نفس کو ناگوار ہو تی ہیں۔ (بخاری ومسلم)

جنت کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ انسان اللہ کی فرمانبرداری کرے اور نافرمانی سے بچے۔ یہ عمل صبر کے ذریعے سے ہی ہو سکتا ہے اور روزہ انسان کے اندر اس صفت کا اضافہ کرتا ہے۔ اسی لیے حدیث پاک میں رمضان کے ماہ کو صبر کا ماہ قرار دیا گیا: اور رمضان صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے۔ (بیہقی)

روزہ دن بھر روزے دار کو پابند بناتا ہے اور رات میں بھی اس کی فطری خواہشات پر لگا م لگا تا ہے۔ سحری میں وقت پر اٹھنا وقت ختم ہونے پر کھانے سے رکنا، دن بھر کھانے پینے سے رکے رہنا، افطار کے وقت دستر خوان پر سب کچھ ہو نے کے باجود رکے رہنا اور وقت ہوتے ہی کھانا پینا شروع کرنا۔ پھر رات کو تراویح پڑھنا، مزید دن میں ان باتوں سے اپنے آپ کو بچائے رکھنا جو ممنوع ہیں۔ اس طریقے سے روزہ مسلسل ایک ماہ تک صبر کی کیفیت کو پیدا کر تا ہے۔ اس صبر کے ذریعے سے انسان اس لائق ہوتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کا اطاعت گزار بن جائے۔ جب بندہ صبر کی صفت کا خوگر ہو جاتا ہے تو باری تعالیٰ اس کے بدلے جنت عطا فر ماتا ہے۔ نبی اکرمؐ نے فر مایا: روزہ ڈھال ہے جس کے ذریعے سے بندہ (جہنم کی) آگ سے بچتا ہے۔ (مسنداحمد)

مسلمانوں کی ذمے داری ہے کہ شہادت علی الناس، اور اقامت دین کے لیے جدوجہد کریں۔ یہ عظیم مشن بڑا ہی صبر آزما ہے، اس کی راہ طویل اور بڑی پر مشقت ہے، قدم قدم پر مخالفتیں، مزاحمتیں اور آزمائشیں ہیں، اس راہ کو سر کرنے کے لیے صبر کی صفت بہت ضروری ہے۔ اسلامی تعلیمات میں صبر کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ قرآن کریم میں 100 سے زائد مقامات پر صبر اور اس سے بنے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ تمام انبیائؑ اور ان کے ماننے والوں کو اللہ نے صبر کی ہدایت دی ہے۔ نبی اکرمؐ اور آپ کی امت کو بھی صبر اختیار کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ’’اور اپنے رب کی خاطر صبر کرو‘‘۔ (مدثر: 7) ’’اور جو باتیں لو گ بنا رہے ہیں ان پر صبر کرو‘‘۔ (مزمل: 10) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو صبر سے مد د لو‘‘۔ (البقرہ: 153) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، صبر سے کام لو‘‘۔ ( آل عمران: 200)
صبر کے ثمرات

صبر ایمان وتقوی کی علامت ہے: جب کوئی مومن دین کو غالب کرنے کی کوشش کرتا ہے، اس راہ میں مصیبتیں آتی ہیں، تو وہ انھیں برداشت کرتا ہے، اس صبر کو قرآن نے ایمان وتقوی کی علامت بتایا ہے۔ ’’تنگی و مصبیت کے وقت میں اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کرنے والے، یہی ہیں راست باز اور متقی‘‘۔ (البقرہ: 177) نبی اکرمؐ سے پوچھا گیا ایمان کیا ہے تو آپؐ نے فرمایا: ایمان نام ہے صبر اور فراخ دلی کا (بیہقی)۔

صبر کا بدلہ جنت: صبر کرنے والوں کو آخرت میں جنت نصیب ہوگی، اور مزید جنت کی اونچی منزلیں و بلند بالا عمارتیں نصیب ہونگی۔ ’’یہ ہیں وہ لوگ جو اپنے صبر کا پھل منزل بلند کی شکل میں پائیں گے‘‘۔ (فرقان: 75)

بھرپور بدلہ ملے گا: جب مومن زندگی میں آنے والی پریشانیوں اور راہ خدا میں آنے والی تکلیفوں کلفتوں کو برداشت کرتا ہے تو اللہ اس کو بھرپور اجر عطا فرماتا ہے۔ ’’صبر کرنے والوں کو تو اجر بے حساب دیا جائے گا‘‘۔ (زمر: 10)

کامیابی ملتی ہے: صبر ایک ایسی صفت ہے کہ اس کے اختیار کرنے سے مومن کو کامیابی و سرخ روئی ملتی ہے۔ ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو صبر سے کام لو باطل پرستوں کے مقابلے میں پامردی دکھاؤ، حق کی خدمت کے لیے کمر بستہ رہو اور اللہ سے ڈرتے رہو امید ہے کہ فلاح پاؤ گے‘‘۔ (آل عمران: 200)

مغفرت نصیب ہوتی ہے: جو لوگ صبر اختیار کرتے ہیں اللہ ان کی مغفرت فرمائے گا۔ ’’وہ لوگ جو صبر کرنے والے اور نیکو کار ہیں وہی ہیں جن کے لیے در گزر بھی ہے اور بڑا اجر بھی‘‘۔ (ھود: 11)

طاقت میں کئی گنا اضافہ ہوتا ہے: صبر واستقامت کے نتیجے میں مومن اس لائق ہو جاتا ہے کہ دشمن پر غالب ہو سکے۔ ’’اے نبی مومنین کو جنگ پر ابھارو۔ اگر تم میں سے بیس آدمی صابر ہوں تو وہ دو سو پر غالب آجائیں گے اور اگر سو آدمی ایسے ہوں تو منکرین حق میں ہزار آدمیوں پر بھاری رہیں گے‘‘۔ (انفال: 65)

اللہ کی معیت حاصل ہو تی ہے: ایک مومن جب صبر کی صفت سے متصف ہو جاتا ہے تو اس کو اللہ کی معیت حا صل ہوجاتی ہے۔ ’’اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔ (انفال: 66)

صبرکے بہت سے پھل ہیں اور ہر پھل نہایت شیریں ہے۔ صبر انسان کو اعلٰی اخلاق کا حامل بناتا ہے۔ جنت والے اعمال سے کو مزین کرتا ہے۔ اور صبر کی اس عظیم صفت کو پروان چڑھانے میں روزہ زبردست رول ادا کرتا ہے۔ اسی لیے رمضان المبارک کو اللہ کے رسولؐ نے صبر کا مہینہ قرار دیا ہے۔ ضرورت ہے کہ روزہ رکھتے وقت ہم کو اس کا شعور و ادراک رہے تاکہ ہماری کوشش اس صفت کو ابھارنے کی طرف بھی رہے۔