مزید خبریں

اعتکاف کی روح

سوال: اعتکاف کے بارے میںانتشارِ فکر کنفیوزن کا شکار ہوں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اعتکاف ایک فضیلت والا عمل ہے۔ اس کی فضیلت قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔اللہ کے رسولؐ نے ہمیشہ اعتکاف کیا ہے، جبکہ بعض دوسرے حضرات اس کی فضیلت کا انکار کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اعتکاف کی فضیلت کے بارے میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہے۔ اسی طرح میں دیکھتا ہوں کہ اعتکاف کرنے والے بہت سے لوگ اعتکاف کے دوران میں اپنے بعض دفتری کام انجام دیتے ہیں۔ وہ طالب علم ہیں تو کورس کی کتابیں پڑھتے ہیں، ملٹی میڈیا والے موبائل بلاتکلف استعمال کرتے ہیں۔ یہ کام مجھے اعتکاف کی روح کے خلاف معلوم ہوتے ہیں۔
براہ کرم اس کے بارے میں درست نقطۂ نظر کی وضاحت فرما دیجیے۔

جواب: اعتکاف قرآن مجید سے ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام کو حکم دیا تھا کہ وہ خانۂ کعبہ کو طواف، اعتکاف اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھیں۔ (البقرہ: 125) عام مسجدوں میں بھی اعتکاف کا ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور جب تم مسجدوں میں معتکف ہو تو بیویوں سے مباشرت نہ کرو‘‘۔ (البقرہ: 187)

اللہ کے رسولؐ نے پابندی سے اعتکاف کیا ہے۔ آپؐ ہر رمضان میں دس دن اعتکاف کرتے تھے۔ آپ نے ابتدائی دس دنوں میں اعتکاف کیا ہے اور درمیانی دس دنوں میں بھی، لیکن پھر آخری دس دنوں میں اعتکاف کا معمول بنا لیا تھا، اس لیے کہ ان میں آپ شبِ قدر کو تلاش کرتے تھے۔ آخری برس آپ نے بیس دن کا اعتکاف کیا تھا۔ آپ کے ساتھ بعض ازواجِ مطہرات اور بعض دیگر صحابہ بھی اعتکاف کیا کرتے تھے۔

البتہ یہ درست ہے کہ اعتکاف کی فضیلت میں صحیح احادیث مروی نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں جو احادیث پیش کی جاتی ہیں وہ عام طور سے ضعیف ہیں۔ مثلاً ایک حدیث یہ بیان کی جاتی ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا ہے: ’’جس شخص نے رمضان میں دس دن اعتکاف کیا اس نے گویا دو حج اور دو عمرے کیے‘‘۔ (شعب الایمان للبیہقی)
اسے محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔

اعتکاف کی روح یہ ہے کہ آدمی ہر طرف سے کٹ کر صرف اللہ تعالی سے جڑے اور صرف اسی سے لَو لگائے۔ وہ تمام دنیاوی مشاغل سے قطع ِ تعلق کرلے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے اور اس کا تقرب چاہنے کے لیے خود کو وقف کردے۔ اعتکاف سے قبل اس کا رابطہ دوسرے انسانوں سے رہتا ہے، وہ ان سے معاملات کرتا ہے۔ اعتکاف کی صورت میں وہ خود کو مسجد تک محدود کرلیتا ہے۔ اس طرح اس کا فعال رابطہ انسانوں سے کٹ جاتا ہے اور صرف اللہ تعالی سے جڑ جاتا ہے۔ اس لیے دورانِ اعتکاف میں آدمی کو صرف وہ کام کرنے چاہییں جن سے اللہ تعالیٰ سے اس کا تعلق مضبوط سے مضبوط تر ہو۔ مثلاً وہ نوافل پڑھے، قرآن مجید کی تلاوت کرے، احادیث پڑھے، ذکر کرے، اوراد و تسبیحات پڑھے، دعاؤں کا اہتمام کرے، توبہ و استغفار کرے، دینی کتابوں کا مطالعہ کرے، مسجد میں ہونے والے دینی خطبات و مواعظ سے فائدہ اٹھائے، وغیرہ۔

لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ آج کل بعض اعتکاف کرنے والوں کی جو سرگرمیاں اعتکاف سے قبل رہتی ہیں، وہی دورانِ اعتکاف بھی جاری رہتی ہیں۔ کوئی شخص کسی ادارے یا تنظیم کا ذمے دار ہے تو اس کا دفتر، مسجد میں اٹھ آتا ہے۔ وہ وہاں رہتے ہوئے تنظیمی معاملات انجام دیتا ہے، ضروری کاغذات پر دستخط کرتا ہے۔ کوئی ڈاکٹر ہے تو دورانِ اعتکاف میں مریضوں کو دیکھتا ہے۔ کوئی منتظم ہے تو اعتکاف خانے میں اپنے ماتحتوں کے ساتھ میٹنگ کرتا ہے۔ کوئی دکان دار یا تاجر ہے تو دورانِ اعتکاف میں خرید وفروخت کے معاملات طے کرتا ہے۔ کوئی کسی کمپنی کا ڈائرکٹر یا منیجر ہے تو اپنے ماتحتوں سے رابطہ رکھتا اور ان کو ہدایات صادر کرتا ہے۔ الغرض اعتکاف کے دوران دوسرے انسانوں سے روابط میں ذرا کمی نہیں آتی اور وہ حسبِ سابق جاری رہتے ہیں۔
آج کل موبائل کی وجہ سے معاملہ اور بھی شدید ہوگیا ہے۔ دورانِ اعتکاف میں آدمی موبائل کے ذریعے اپنی تمام پسندیدہ شخصیات اور تمام پسندیدہ کاموں سے جڑا رہتا ہے۔ وہ دوسروں کو فون کرتا ہے اور ان کے فون سنتا ہے۔ اس کے علاوہ فیس بک، واٹس ایپ، ٹیوٹر اور ملٹی میڈیا کے دیگر وسائل سے بھی مربوط رہتا ہے۔

اعتکاف کی روح یہ ہے کہ آدمی دورانِ اعتکاف میں صرف اللہ تعالی سے اپنا رابطہ جوڑے اور غیراللہ سے رابطہ محدود کرلے۔ اس لیے بہتر تو یہ ہے کہ اعتکاف کرنے والا یا تو اپنے پاس موبائل نہ رکھے، یا رکھے تو اسے خاموش کرلے، دوسروں کے فون ریسیو نہ کرے اور خود جب بہت ضروری ہو تب ہی کسی کو فون کرے۔
بہرحال اعتکاف کرنا ہر شخص کے لیے ضروری نہیں۔ اس لیے صرف وہی شخص اس کا ارادہ کرے جو نو دس دنوں تک اپنے عام دنیاوی تعلقات سے کنارہ کش ہونے کی سکت رکھتا ہو۔