مزید خبریں

دکھاوے کا اعتکاف تربیت و تزکیہ کا سبب نہیں بنتا

کراچی (سید وزیر علی قادری) رمضان المبارک ایمان واحتساب مہینہ ہے‘اس کاآخری عشرہ اہل ایمان کیلیے انتہائی اہم ہے اسی ماہ قرآن کانزول ہوا‘ آخری عشرے میں لیلۃ القدر کی بشارت دی گئی ہے جس کی عبادت ہزارماہ کی عبادت سے افضل قراردی گئی ہے‘ اسی عشرے میں اعتکاف بھی فرض کفایہ قرار دیا گیاہے‘ تاہم فی زمانہ نمود ونمائش اور سماجی غلبہ کے باعث لوگ اس کے حقیقی مقاصدسے دور ہوتے جارہے ہیں‘ اس ضمن میں نوجوانوں پر تنقید کے بجائے ان کی درست سمت میں رہنمائی ضروری ہے تاکہ ایمان اور احتساب کا جذبہ بیدار ہو‘لوگ اس سے مستفید ہوکر معاشرے کے نہ صرف بہتر فرد بن سکیں بلکہ وہ اس معاشرے کے لیے رول ماڈل کا کردار بھی ادا کرسکیں ان خیالات کااظہارفنانس سیکرٹری پاک انٹرنیشنل اوورسیزفورم سعودی عربسید محمود معین الدین ‘صدر شعبہ اردوسراج الدولہ گورنمنٹ ڈگری کالج نمبر1 کراچی معتمد عمومی بزم اساتذہ اردو(رجسٹرڈ)سندھ ڈاکٹرعرفان شاہ‘ نائب صدر بہادریارجنگ اکادمی معتمد ادارہ علم دوست میر حسین علی امام‘معروف صحافی و مرکزی چیئرمین پاک یونائیٹڈ میڈیا فورم ریاض سعودی عرب عابد شمعون چاند‘بھوپال بھارت بھارت کے معروف مذہبی اسکالر حسّان ندوی نے جسارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔سید محمود معین الدین نے کہا کہ اعتکاف کا عمل انسان کی روح کی تربیت کیلئے ہوتا ہے کہ اس کی روح صحیح معنوں میں اللہ سے رجوع ہو جائے جب روح اللہ سے رجوع ہو جاتی ہے تو اس کے اثرات اس کے جسم پر نمودار ہوتے ہیں۔پھر جسم اسی طرح پاکی اختیار کرتا ہے۔ کیونکہ انسان الگ چیز ہے اور اس کا جسم الگ چیز ہے۔ انسان جو اپنے جسم کو حکم دیتا ہے جسم وہی حکم بجا لاتا ہے اگر روح پاک ہوگی تو جسم بھی صحیح کام کرے گا۔اور صحیح سمت ہو جائے گا تو لہٰذا ہمیں چاہییے کہ اعتکاف کا عمل ضرور کریں اسی لیے احتکاف کے عمل کے لیے تنہائی ضروری ہے۔ ڈاکٹر عرفان شاہ نے کہا کہ روزنامہ جسارت کا امتیاز ہے کہ وہ عصر رواں کے مسائل کی بروقت نہ صرف نشاندہی کرتا ہے بلکہ اس کے ممکنہ تدراک کے لیے اہل دانش کی رائے اپنے قارئین تک پہنچاتا ہے۔ مذکورہ سوال بھی ایک اہم دینی عبادت کے حوالے سے سامنے آنے والے مختلف سماجی رویوں کے مضمرات سے بروقت آگہی پر مبنی ہے۔ اعتکاف انفرادی سطح پر قرب الٰہی اور احتساب ذات کا اعلیٰ ترین وسیلہ ہے جس کے لے تزکیہ نفس احساس اطاعت کے تمام تقاصوں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے اجتماعی طور پر اعتکاف کی عبادت پرفی زمانہ سماجی غلبہ نظر تا ہے۔ میر حسین علی امام نے کہاکہ اسلام میں رہبانیت کا تصور نہیں ہے۔مسجد اس میں عبادت کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ تعلیم اور سماجی کام یعنی بیت المال کے تحت زکوٰۃ جمع کرنا اور ضرورت مندوں کی حاجت پوری کرنا شامل ہے‘نفس کی اصلاح کے لئے اسلام میں رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف کی عبادت رکھی گئی ہے اس میں تربیت سازی ہوتی ہے کہ مسلمان اس میں دنیا کے لہوولعب سے دور رہ کر صرف اللہ کی عبادت کرے ‘ذکر‘ نوافل‘ تہجد‘ قرآن مجید کی تلاوت‘ ترجمہ تفسیر پڑھے ‘پہلے مساجد چھوٹی ہوتی تھیں اعتکاف کی سہولت بھی میسر نہیں ہوتی تھی‘ اعتکاف سنت علی الکفایہ ہے یعنی محلے میں سے 2 ایک نے بھی ادا کردیا تو پورے محلے سے ادائیگی ہو جاتی ہے۔مساجد بہت ہو گئی ہیں‘ خوبصورت اور دلکش‘ سہولت بھی اے سی وغیرہ کھانے پینے کا اہتمام اعتکاف کرنے والے معتکفین مل کر کر لیتے یا دو تین صاحب ثروت‘ اس لیے نوجوانوں میں یہ ایک سماجی تقریب بن گئی محلے کے مختلف نوجوانوں کے گروپ مل کر اعتکاف کا اہتمام کرتے چند دوست سحری افطار لاتے ان کے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کرتے افطاری سحری کرتے کچھ دنیاوی باتیں ہوتی ہیں اور کچھ دین کی درس قرآن حدیث وغیرہ۔رات میں دیگیں آئس کریم وغیرہ‘ اللہ عبادات قبول کرنے والاہے‘ وہی نعمتیں دیتا ہے۔ نوجوانوں میں اعتکاف کو میں اس لحاظ سے اچھا دیکھتا ہوں کے چند دن یہ بچے یہ نوجوان دنیا کی مصروفیت گندگی شاپنگ ٹی وی وغیرہ سے ہٹ کر کچھ نہ کچھ وقت ذکر دعائیں درس بیان سننے میں لگاتے ہیں۔یہ توبہ استغفار جوانی کی اللہ کو بہت پسند ہے۔ہمیں یہ چاہیے کہ اصلاح کے لیے تربیت کے لئے علما مشائخ کی کتب معمولات اذکار بھی ان کو مہیا کریں ان سے آسانی ہوگی وہ مساجد جن میں تبلیغی جماعت‘ دعوت اسلامی‘ جماعت اسلامی یا کسی مشائخ کی خانقاہ ہوتی ہے ان میں روحانیت تزکیہ نفس بھی ہوتا ہے بہرکیف اس کم کو بھی غنیمت سمجھیں کہ نوجوان مسجد اور اعتکاف تک آتا ہے اپنی مرضی سے اپنے دوستوں کے ساتھ یہ غنیمت ہے۔ عابد شمعون چاند نے کہا کہ آج کے دور میں اعتکاف روحانیت کی بجائے سماجی سر گرمیاں اختیار کر رہا ہے تقریبا ہر اعتکاف پر بیٹھنے والے کے پاس موبائل کے ساتھ ساتھ دیگر پروٹوکول لازم و ملزوم بن گے ہیں جس کی اسلام میں کوئی اجازت نہیں ہونا تو یہ چاہیے کہ اعتکاف سے فراغت کے بعد متحکف کو اعتکاف گاہ سے پروٹوکول کے ساتھ نکالا جائے اس کے گلے میں پھولوں اور نوٹوں کے ہار پہنائے جائیں اور جلوس کی شکل میں اسے گھر پہنچایا جائے شنید ہے کہ بعض مقامات پر متکحف حضرات کی یاد گار تصاویر بھی بنائی جاتی ہیں دین اسلام میں ایسے کاموں کی کوئی گنجائش نہیں ہے اعتکاف کا مقصد یہ ہے کہ دل کا اللہ تعالی کے ساتھ رابطہ ہو جائے اس کے ذریعہ سکون و طمانیت میسر آ جائے متکحف کو گناہوں سے نفرت اور امور خیر سے محبت ہو اگر دوران اعتکاف یہ چیزیں حاصل ہو جائیں تو ایسے انسان کو قطعا ضرورت نہیں ہے کہ وہ فراغت کے بعد اپنے گلے میں پھولوں کے ہار پہنے یا لوگوں کی مبارکباد وصول کرے بلکہ اسے چاہیے کہ فراغت کے بعد چپکے سے اپنا بستر کندھے پر رکھے اور سادگی سے اپنے گھر روانہ ہو جائے گلے میں ہار پہنانے سے ریا کاری اور نمائش کا اندیشہ ہے پھر ایسا کرنا اسلاف سے ثابت بھی نہیں اعتکاف آج کل عبادت نہیں‘ سنت کی ادائیگی نہیں ، فرض کفایہ نہیں ‘ فیشن تقویٰ اور عبادت گزاری دکھانے کا ایک ذریعہ بن گیا ‘ یاد رہے کہ اعتکاف تزکیہ نفس کے ساتھ ساتھ ضبط‘ برداشت ،سادگی اور روحانی پختگی کا درس دیتا ہے۔ بھوپال بھارت بھارت کے معروف مذہبی اسکالر حسّان ندوی نے کہا کہ اعتکاف ایک مسنون عبادت ہے جس کا تذکرہ قرآن وحدیث میں بھی بہت اہتمام سے آیا ہے، عربی لغت اور مسنون طریقہ کے اعتبار سے اور دین کے مزاجِ اعتدال کو دیکھتے ہوئے یہ مترشح ہوتا ہے کہ اس کا مقصد مکمل طور پر ساری دنیا سے منقطع ہو کر گوشہ نشینی اختیار کرتے ہوئے عبادت وریاضت میں مصروف ہوا جائے اور اپنے آپ کو چند دنوں کے لئے فنا فی اللہ کی سی کیفیت میں لے جایا جائے۔اگرچہ رسول اللہ ؐ کے زمانے میں بیک وقت مسجد میں متعدد لوگوں کا ایک ساتھ معتکف ہونا اور کبھی کبھار آپؐ کا ان سے کوئی توجیہ وارشاد کی گفتگو کر لینا بھی ثابت ہے لیکن جس طریقہ سے آج کل مختلف اجتماعی اعتکافات کا رواج بڑھ رہا ہے جس میں شرکاء کی بھیڑ، شور شرابا، پکوانوں کی دیگیں، دنیاوی گفتگو، سیاسی آرا پر بحث ومباحثے اور اطرافِ مسجد میں موبائل کا کثرتِ استعمال اعتکاف کے روحانی مقصد کے بالکل متنافی معلوم ہوتا ہے اور لمحہ فکر ہے۔