مزید خبریں

فلسطین:عوام اور مزدوروں کی بدحالی

مزدوروں کے حقوق کی آواز ہر فورم پر اٹھائی جاتی ہے۔دنیا میں مزدوروں کے لیے کئی قوانین موجود ہیں۔ ان کو کئی حقوق حاصل ہیں۔ مگر یہی دنیا غزہ کے مزدوروں کے معاملہ میں مکمل خاموش ہے۔ خاص کر مغرب جو کہ انسانی حقوق کا علمبردار ہے۔ آنکھیں بند کر کے بیٹھا ہے۔ کسی کو غزہ کے مزدوروں کی حالت پر رحم نہیں آتا وہ مزدور جو آئے روز اپنی ہی تعمیر کردہ بستی کو تباہ ہوتے دیکھتا ہے۔ ہر مکان میں جوڑی اینٹیں جو اس نے دن رات ایک ایک کرکے دیوار کی شکل میں تعمیر کی تھیں۔ ان کو روز گرتے دیکھتا ہے۔ وہ چھت جس کو اس نے بڑی محنت سے کھڑا کیا تھا گرتے دیکھتا ہے۔ وہ مکان جو بڑی محبت سے تیار ہوا تھا تباہ ہوتے دیکھتا ہے۔یہی نہیں اس گھر کے مکین جنہوں نے اس مزدور کو بلایا اس کی تعمیر کا کام دیا جو روز کام ختم ہونے تک اس مزورد کے آس پاس ہی گھومتے رہتے، جو مکان کی ایک ایک اینٹ کو چڑھتا دیکھتے، کبھی ہدایات دیتے ، کبھی بے چین ہو کر اس کی مدد میں لگ جاتے ، جنہوں نے کبھی کوئی اینٹ نہیں اٹھائی ہوتی وہ بھی اس کے ساتھ اینٹیں اٹھانے میں لگ جاتے اور صبر سے انتظار کرتے کہ کب گھر تیار ہو اور وہ اس کے مکین بنے ، غرض یہ کہ جنہوں نے بڑی محبت سے اس گھر کو بنوایا اب وہی گھر نہ صرف تباہ ہوگیا ہے بلکہ اپنے ساتھ اپنے مکینوں کو بھی لے گیا۔ غزہ کے مزدور جب ان ملبوں سے چھوٹے چھوٹے بچوں کی لاشیں نکلتی دیکھتے ہیں تو سوچتے ہیں کہ کاش انہوں نے یہ گھر بنایا ہی نہ ہوتا۔ کاش وہ مزدوری کے لیے آئے ہی نہ ہوتے یا مکان کچا ہوتا گھاس پھوس کا ہوتا تو مکین زندہ درگور تو نہ ہوتے۔ کچھ چھوٹی موٹی چوٹیں لگ جاتی مگر زندہ ہوتے۔ ان مزدوروں کی ذہنی حالت کا اندازہ کچھ مشکل نہیں ہے جو روز اپنی اپنی بستی برباد ہوتے دیکھتے ہیں۔ مگر ہمیں کیا ہم تو کسی تباہ شدہ بستی میں نہیں رہتے ، نہ ہمیں بمباری کا خطرہ ہے نہ مکان ڈھے جانے کا ، نہ سڑکیں تباہ ہونے کا نہ مرنے کا، نہ اپنے بچوں کی لاشیں اٹھانے کا ہم کتنے خوش نصیب ہیں۔ بس ایک ہی مسئلہ ہے اللہ کے سامنے غزہ کے بارے میں جواب دہی کا۔