مزید خبریں

پی آئی اے کی اہمیت اور منسلک مفادات

پی آئی اے کو ٹھکانے لگانے کے لیے جو شخص باہر مغرب کے اشارے بلکہ حکم پر درآمد کیا گیا ہے وہ اس ملک سے کتنا وفادار ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حبیب بینک کی نوکری پوری کرتے ہی مغرب کی گود میں جا بیٹھا بلکہ خود کو مغرب کے حوالے کردیا ’’ساڈے لائق کوئی خدمت‘‘۔پی آئی اے کو ٹھکانے لگانا کس طرح ملک سے غداری ہے اس پر بھی بات کی جائیگی پہلے PIA کی اہمیت کو سمجھ لیں۔پی آئی قومی اثاثہ ہے۔ پی آئی اے قومی پرچم بردار فضائی کمپنی ہے۔ پی آئی اے کو بیچنا قومی نشان کو بیچنے کے مترادف ہے، جو غداری کے زمرے میں آتا ہے۔ پی آئی اے قوم کا مان ہے۔ پی آئی اے سے قوم جذباتی لگاؤ رکھتی ہے۔ پی آئی اے پاکستان کی آن بان شان ہے۔ پی آئی اے پاکستان کا اڑتا سفیر ہے۔ پی آئی اے دیار غیر میں پاکستانیوں کا فخر ہے۔ پی آئی اے براہ راست ڈالر کماؤ بیٹا ہے۔ پی آئی اے دیار غیر میں بسنے والے پاکستانیوں کو بہترین سفری سہولیات پہنچانے والا واحد ادارہ ہے۔

پی آئی اے اندرون ملک و بیرون ملک پاکستانیوں کی امیدوں کا آخری سہارا ہے۔ پی آئی اے یورپ، امریکا، کینیڈا، افریقہ، مشرق وسطی، مشرق بعیدو آسٹریلیا میں بسنے والے ساٹھ لاکھ پاکستانیوں کے لیے قابل اعتماد قابل بھروسہ اور براہ راست پاکستان میں منزل مقصود تک پہنچانے کا واحد ذریعہ ہے۔ پی آئی اے مڈل ایسٹ میں کم پڑھے لکھے مزدوروں کو اطمینان اور سکون قلب پہنچانے والا واحد ادارہ ہے کہ جو مزدور انگریزی لکھ پڑھ نہیں سکتے ان کے لیے بیرونی فضائی کمپنی پر سفر کرنا بہت مشکلات

پیدا کرتا ہے اس لیے سو فیصد مزدور
طبقہ پی آئی اے کو ترجیح دیتا ہے جو ادارے کی آمدنی کا خالص ذریعہ یعنی یہ اربوں کا سرمایہ صرف اور صرف پی آئی اے کی جھولی میں ہی گرنا ہے پھر کون بیوقوف ہے جو اتنا خطیر سرمایہ چھوڑے کر اغیار کی جھولی میں ڈال رہا ہے۔ ساٹھ لاکھ مسافر جس ائیر لائنز کو سال کے پورے بارہ مہینے دستیاب ہوں اسے تو فوراً 60/70کی دہائی میں جب کہ پی آئی اے اس وقت دنیا کی چند عظیم ترین ائیر لائینز میں شمار ہوتی تھی لے کر جانا کیا مشکل ہے۔

پی آئی اے دنیا کی واحد ایئر لائینز ہے جسے 6ملین سے زیادہ مسافر سال کے 12مہینے دستیاب ہیں ایسے میں تو اگر پی آئی اے کے پاس 100سے زائد جہاز ہوں تو وہ بھی کم پڑ سکتے ہیں۔ پی آئی اے کو دنیا کے کسی بھی ملک سے 45فیصد مسافر ہر دم مل سکتے ہیں کیونکہ مسافروں کی اتنی تعداد فلائٹ کا خرچہ نکالنے کے لیے کافی ہوتے ہیں باقی اس سے اوپر منافع کما کر دیتے ہیں۔ پی آئی اے کو سال کے بارہ مہینے کیسے مسافر دستیاب ہوتے ہیں ان پر ایک نظر: جنوری میں نیو ائیر، سردیوں میں یورپ، امریکا، کینیڈا سے پاکستانیوں کی بڑی تعداد میں وطن واپسی،عمرہ سیزن، حج آپریشنز، جون جولائی میں اسکولوں کالجوں کی طلبہ کی چھٹیاں۔ اسی موسم میں امریکا، یورپ، کینیڈا سے وطن واپس آئے ہوئے پاکستانیوں کی واپسی، اس کے بعد پوری دنیا میں معتدل موسم اور بزنس ٹائم کی وجہ سے لاکھوں انسانوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر ، اس کے علاوہ امریکا، کینیڈا، یورپ، مڈل ایسٹ، فار ایسٹ، افریقہ، بر صغیر میں کنکشن فلائٹس کا خطیر تعداد میں مسافر سال کے 12گھنٹے دستیاب ہوتا ہے یہ اتنی بڑی کمائی ہوتی ہے کہ بہت سے جہازوں کی لیز بآسانی نکالی جا سکتی ہے۔پی آئی اے پر ہاتھ رکھنے والا پاگل تو نہیں کہ ایسی سونا اگلتی ایئرلائن کو ہاتھ سے جانے دے۔ چند ماہ و سال میں آپ دیکھیں گے کہ پی آئی اے نے اس سال سو ارب کمائے پھر آپ کے لیے سوائے کف افسوس ملنے کے کچھ باقی نہ بچے گا۔