مزید خبریں

زیورات پر زکوٰۃ

مال دار اور صاحب ِ حیثیت مسلمانوں پر زکوٰۃ فرض ہے۔ جن چیزوں پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے ان میں سونا، چاندی، کھیتی، پھل، اموال تجارت اور جانور وغیرہ ہیں۔ استعمالی چیزوں مثلاً زمین، مکان اور گھریلو ساز وسامان وغیرہ پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ عورتیں زیب و زینت کے لیے سونے چاندی کے، جو زیورات بنوالیتی ہیں ان پر زکوٰۃ فرض ہے یا نہیں؟ اس سلسلے میں علماء کا اختلاف ہے۔ یہ اختلاف صحابہ و تابعین کے زمانے میں بھی تھا۔ حضراتِ صحابہ میں ابن عمر، جابر، عائشہ، انس اور اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہم اور تابعین و متاخرین میں قاسم، شعبی، قتادہ، محمد بن علی، عمرہ، ابوعبیدہ، اسحاق اور ابوثور اور فقہائے اربعہ میں امام مالک، امام شافعی اور امام احمد رحمہم اللہ زیورات میں زکوٰۃ کے عدم وجوب کے قائل ہیں۔ یہ حضرات آثارِ صحابہ سے استدلال کرتے ہیں:
سیدہ عائشہؓ اپنی بھتیجیوں کو، جو ان کے زیر پرورش تھیں، سونے کے زیورات پہناتی تھیں، مگر ان کی زکوٰۃ نہیں نکالتی تھیں۔

(موطا امام مالک، کتاب الزکوٰۃ) نافع بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمرؓ اپنی صاحب زادیوں اور لونڈیوں کو سونے کے زیورات پہناتے تھے، مگر ان کی زکوٰۃ نہیں نکالتے تھے۔ (موطا امام مالک) اسی طرح سیدہ اسماء بنت ابی بکرؓ کے بارے میں بھی مروی ہے کہ وہ اپنی لڑکیوں کو سونے کے زیورات پہناتی تھیں، مگر ان کی زکوٰۃ نہیں نکالتی تھیں۔ (بیہقی) جابر بن عبد اللہؓ سے کسی نے پوچھا: کیا زیورات میں زکوٰۃ ہے؟ انھوں نے جواب دیا: نہیں۔ پوچھنے والے نے پھر دریافت کیا: خواہ ان کی مالیت ایک ہزار دینار کو پہنچ جائے؟ فرمایا: خواہ اس سے زیادہ ہوجائے۔ (بیہقی)

لیکن صحابہ، تابعین اور فقہاء کی دوسری جماعت زیورات میں زکوٰۃ واجب قرار دیتی ہے۔ ان میں عمر بن الخطاب، ابن مسعود، عبداللہ بن عمرو بن العاص، سعید بن المسیّب، سعید بن جبیر، عطا، مجاہد، عبد اللہ بن شداد، جابر بن زید، ابن سیرین، میمون بن مہران، زہری، ثوری اور فقہائے اربعہ میں سے امام ابو حنیفہ رحہم اللہ قابل ذکر ہیں۔ ان حضرات کا استدلال درج ذیل احادیث نبوی سے ہے:

ـ1۔ سیدنا عبد اللہ بن شدادؓ فرماتے ہیں: ہم ام المومنین عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انھوں نے فرمایا: ایک مرتبہ رسولؐ میرے پاس تشریف لائے۔ آپ نے میرے ہاتھوں میں چاندی کے چھلّے (بغیر نگینے کی انگوٹھیاں) دیکھے تو فرمایا: یہ کیا ہے عائشہ؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں نے انھیں آپ کے لیے زینت اختیار کرنے کے مقصد سے پہنا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: کیا ان کی زکوٰۃ ادا کرتی ہو؟ میں نے عرض کیا: نہیں (یا فرمایا کہ تھوڑا بہت دے دیتی ہوں )۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: جہنم کی آگ سے محفوظ رہنے کے لیے ان کی زکوٰۃ ادا کرنا ضروری ہے۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الزکاۃ، اسے دار قطنی، حاکم اور بیہقی نے بھی روایت کیا ہے اور اس کی سند صحیح کی شرط پر ہے، جیسا کہ حافظ ابن حجر نے لکھا ہے، بحوالہ: جامع الاصول)

ـ2۔عن عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ کی سند سے ایک روایت ہے کہ ایک عورت رسولؐ کی خدمت میں اپنی ایک لڑکی کے ساتھ حاضر ہوئی۔ اس لڑکی کے ہاتھ میں سونے کے دو موٹے کنگن تھے۔ آپؐ نے فرمایا: کیا تم اس کی زکوٰۃ ادا کرتی ہو؟ اس نے جواب دیا: نہیں۔ آپؐ نے فرمایا: کیا تمھیں اچھا لگے گا کہ اللہ تعالیٰ روز ِ قیامت اس کے بدلے جہنم کی آگ کے کنگن پہنائے؟ یہ سن کر اس نے دونوں کنگن اتار کر نبیؐ کے آگے رکھ دیے اور کہا: یہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں‘‘۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الزکاۃ، سنن نسائی، کتاب الزکاۃ)
اسی سے ملتے جلتے مضمون کی ایک حدیث امام ترمذیؒ نے بھی روایت کی ہے۔ (جامع ترمذی، ابواب الزکاۃ)

ـ3۔سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ کی زوجہ سیدہ زینبؓ فرماتی ہیں کہ رسولؐ نے ایک مرتبہ ہمارے درمیان خطبہ دیا تو فرمایا:
’’اے عورتو! صدقہ کرو، خواہ تمھیں اپنے زیورات ہی میں سے کرنا پڑے ‘‘۔ (بخاری)

ـ4۔عطاء بن ابی رباحؓ فرماتے ہیں کہ ام المومنین سیدہ ام سلمہؓ فرماتی ہیں: میں سونے کے زیورات پہنا کرتی تھی۔ ’’ایک مرتبہ میں نے اللہ کے رسولؐ سے دریافت کیا: کیا ان کا شمار بھی اس مال پر ہوگا، جس کے جمع کرنے پر عذاب کی خبر دی گئی ہے۔ آپؐ نے فرمایا: اگر ان کی زکوٰۃ ادا کردی جائے تو ان کا شمار ایسے مال میں نہیں ہوگا‘‘۔ (سنن ابی داؤد)
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ زیورات کی زکوٰۃ نکالنی واجب ہے۔ یہ احادیث مرفوع ہیں اور وجوب ِ زکوٰۃ کے بارے میں زیادہ صریح ہیں۔ اسی لیے امام خطابیؒ نے فرمایا ہے:

’’کتاب اللہ میں مال و دولت جمع کرنے اور اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنے پر عذاب کی خبردی گئی ہے۔ (التوبہ: 34) اس سے ان لوگوں کے قول کو تقویت ملتی ہے، جو زیورات پر زکوٰۃ کے وجوب کے قائل ہیں اور روایات سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ جن لوگوں نے زیورات پر زکوٰۃ کو ساقط کیا ہے انھوں نے استعمالی چیزوں پر زکوٰۃ کے عدم وجوب پر قیاس کیا ہے۔ ان کی تائید میں چند آثار ِصحابہ ہیں۔ اس لیے احتیاط کا تقاضا ہے کہ زیورات پر زکوٰۃ ادا کی جائے‘‘۔ (بہ حوالہ فقہ السنہ)

زیورات اگر بیوی کی ملکیت ہیں تو ظاہر ہے کہ ان کی زکوٰۃ بھی اسے ہی ادا کرنی ہے۔ بیوی کی ملکیت والے زیورات کی زکوٰۃ کی ادائی شوہر کے ذمے کیوں کر ہوگی؟ اسلام نے عورت کو ملکیت کا حق دیا ہے۔ اسے اپنے مہکے یا دیگر اعزہ سے، جو چیزیں ملیں، خواہ وہ زیورات ہوں، زمین جائیداد ہو، مکان ہو یا کچھ اور، وہ اس کی مالک ہے اور اسے اس کا انتظام کرنے اور دیکھ بھال کرنے، اس سے فائدہ اٹھانے اور اس میں تصرف کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔

زیورات پر زکوٰۃ ادا کرنے کا ارادہ ہو تو بہ آسانی اس کا نظم کیا جاسکتا ہے۔ ظاہر ہے، خواتین پورے سال تہی دست نہیں ہوتیں۔ انھیں نجی خرچ کے لیے اپنے شوہروں سے اور دیگر ذرائع سے کچھ نہ کچھ رقم ملتی رہتی ہے۔ وہ اس میں سے تھوڑا تھوڑا پس انداز کرکے اتنی رقم اکٹھا کرسکتی ہیں کہ اپنے زیورات کی زکوٰۃ ادا کرسکیں۔ لیکن اگر وہ مختلف ذرائع سے ملنے والی رقم کو بھی زیورات میں تبدیل کرتی رہیں گی تو ادائی زکوٰۃ کے لیے ان کے پاس کچھ نہ بچے گا اور زکوٰۃ نہ نکالنے پر احساسِ گناہ کے ساتھ زیورات کو زیب تن کرنا ان کا مقدّر بنا رہے گا۔