مزید خبریں

حصولِ رزقِ حلال

اس طویل و عریض دنیا میں نہ جانے کتنی قسم کی اور کیسی کیسی مخلوقات بستی ہیں، سب کی نوعیتیں مختلف ہیں، اجناس مختلف ہیں اور سب کا زندگی گزارنے کا طریقہ مختلف ہے، مگر ایک چیز سب جان داروں میں قدرِ مشترک ہے کہ انھیں اپنی زندگی گزارنے کے لیے کھانے پینے کی ضرورت پڑتی ہے اور سب کی خوراک بھی الگ الگ ہے۔ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی عظیم قدرت کی بڑی نشانی ہے کہ وہ تنِ تنہا ان ساری ان گنت مخلوقات کی روزی کا انتظام کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’زمین میں چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو اور جس کے متعلق وہ نہ جانتا ہو کہ کہاں وہ رہتا ہے اور کہاں وہ سونپا جاتا ہے، سب کچھ ایک صاف دفتر میں درج ہے‘‘۔ (ہود :6)

رزق اور مال و دولت کے معاملے میں اللہ تعالیٰ کی اپنی حکمتیں ہیں، جن کے تحت وہ مخلوقات میں رزق کی تقسیم کرتا ہے، انسانوں میں ہی ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے لوگوں کے پاس بے پناہ دولت ہوتی ہے، جب کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جنھیں بس زندگی گزارنے کے بقدر روزی میسر ہوتی ہے اورکچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں، جو یکسر خالی ہاتھ ہوتے اور ان کے پاس کچھ نہیں ہوتا ہے، اس میں بھی اللہ کی عظیم حکمت یہ پوشیدہ ہے کہ اس طرح ہم ایک دوسرے سے عبرت حاصل کریں اور ساتھ ہی اپنی اپنی وسعت کے مطابق ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرنے میں دلچسپی کا مظاہرہ کریں، اللہ تعالیٰ کسی متمول بندے کو ایک دوسرے نادار ومحتاج بندے تک روزی پہنچانے کا ذریعہ بھی بناتا ہے، ارشادِباری تعالیٰ ہے: ’’آسمانوں اور زمین کے خزانوں کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں، جسے چاہتا ہے کھلا رزق دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تلا دیتا ہے، اسے ہر چیز کا علم ہے‘‘۔ (شوری :12) مزید فرمایا: ’’اور آسمان ہی میں ہے تمہارا رزق بھی اور وہ چیز بھی جس کا تم سے وعدہ کیا جارہا ہے‘‘۔ (ذاریات :22)

احادیث اور اپنے شب و روز کے عمل کے ذریعے اللہ کے نبیؐ نے مسلمانوں میں یہ عقیدہ راسخ کیا ہے کہ رزق کی تمام تر ذمے داری اللہ اور خالقِ کائنات کے سپرد ہے اور اسے اپنی ہر مخلوق اور ہر ضرورت مند بندے کی ضرورت کا مکمل علم ہے، اس لیے بندے کو تنگ دستی میں مایوس نہیں ہونا چاہیے، بلکہ تقویٰ، پرہیزگاری اور اپنے رب کی اطاعت و فرماں برداری کرتے ہوئے رزق کی تلاش میں لگنا چاہیے۔ سیدنا جابر بن عبد اللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا: ’’اے لوگو، تقوی اختیار کرو، خوش اسلوبی سے رزق طلب کرو، بلاشبہ کسی انسان کو اس وقت تک موت نہیں آسکتی ہے یہاں تک کہ وہ اپنا پورا رزق نہ کھا لے، اگرچہ رزق اس تک پہنچنے میں دیر کردے، لہذا اللہ سے ڈرو اور خوش اسلوبی سے مانگو، جو حلال ہے اس کو لے لو اور جو حرام ہے اس کو چھوڑ دو‘‘۔ (سنن ابن ماجہ)

انسان کے مقدر میں جو رزق لکھا ہوا ہوتا ہے، وہ اس تک پہنچ کر رہتا ہے، اس کے اسباب اللہ تعالیٰ پیدا فرمادیتے ہیں، اس کی مثال ہمیں عہدِ نبویؐ کے ایک واقعے میں ملتی ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ ایک سائل نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا تو کچھ ایسی کھجوریں آپ کی خدمت میں آئی ہوئی تھیں، جن کا مالک نامعلوم تھا، آپؐ نے وہ کھجوریں اس کو دے دیں اور اس سے فرمایا: ’’ان کو لے لو، اگر تم ان کے پاس نہ آتے تو یہ تمہارے پاس پہنچ جاتیں‘‘۔ (صحیح ابن حبان)

اسلام ہمیں اس بات کی بھی تلقین کرتا ہے کہ ہم رزق کے حصول کی جدوجہد میں سارا انحصار اور بھروسہ اپنی محنت اور کمائی ہی پر نہ کریں، بلکہ ہمارا اصل اعتماد اور توکل اس ذات پر ہونا چاہیے، جو مسبب الاسباب ہے اور جو ساری مخلوقات کی روزی کا انتظام کرنے والی ہے۔ سیدنا عمر بن خطابؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر تم اللہ پر ویسے توکل کرو جیسا کہ توکل کرنے کاحق ہے تو تم کو اس طرح رزق دیا جائے گا جس طرح پرندوں کو رزق دیا جاتا ہے، وہ خالی پیٹ صبح کو نکلتے ہیں اور پیٹ بھر کر شام کو واپس آتے ہیں‘‘۔ (سنن ترمذی)
سیدنا ابو درداءؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’بلاشبہ رزق انسان کو ویسے ہی تلاش کرتا ہے جیسے اس کی موت اس کو تلاش کرتی ہے‘‘۔ (صحیح ابن حبان)

اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر مخلوق کے لیے اس کا رزق متعین کردیا ہے، اڑنے والے پرندوں کا رزق فضاؤں میں اور زمین میں رکھا، مچھلی کا پانی میں، جنین کا ماں کے پیٹ میں، زمین پر حرکت کرنے والی ہر مخلوق کا رزق زمین پر رکھا اور اس کے لیے وہاں پہنچنا آسان کر دیا ہے، ذرائع مختلف ہوسکتے ہیں، یہ انسان کے اپنے اختیار پر منحصر ہے کہ وہ حصولِ رزق کے لیے کیسا ذریعہ اختیار کرتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کسی انسان کے ساتھ خیر کا معاملہ کرتا ہے تو اس کے رزق اور سامانِ زیست میں برکت عطا فرماتا ہے، اگر چہ اس کے پاس رزق بظاہر کم ہی کیوں نہ ہو، لیکن ایسا انسان ذہنی اور قلبی اعتبار سے پرسکون ہوتا اور اللہ کا شکر ادا کرتا ہے، لیکن اگر اس کو برکت کی دولت سے محروم کردیا گیا تو اگرچہ اس کے پاس بہت کچھ ہو، لیکن اس سے اس کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا ہے، مزید یہ کہ بے برکتی کی وجہ سے مال و دولت اور تمام اسبابِ عیش ہونے کے باوجود اس کے دل میں ایک عجیب قسم کی بے سکونی اور بے چینی کی کیفیت برپا رہتی ہے۔

یہ ایمان کے مبادیات کا حصہ ہے کہ ایک مسلمان اپنے دل میں اس بات کا پختہ یقین رکھے کہ اس کے حصے کا رزق طے شدہ اور لکھا ہوا ہے، اس سلسلے میں احادیث میں تفصیلات وارد ہوئی ہیں، جن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ماں کے پیٹ میں موجود بچے کے لیے ایک فرشتہ بھیجتا ہے، جس کو چار امور لکھنے کا حکم ہوتا ہے: اس بچے کا عمل، رزق، موت، بدبختی یا سعادت۔ لہذا جو کسی انسان کے مقدر میں ہوگا وہ اور کسی کو نہیں مل سکتا ہے اور کوئی انسان اس وقت تک دنیا سے نہیں جاسکتا ہے جب تک کہ وہ دنیا میں اپنا رزق مکمل نہ کردے۔