مزید خبریں

رمضان اور تبتل الی اللہ

ماہِ رمضان اللہ سے تعلق مضبوط کرنے کا سنہری موقع ہے۔ اگراس ماہِ مبارک میں دلوں کے اندر اللہ کے ساتھ سچے تعلق کا بیج ڈال دیا جائے تو وہ برگ و بار لاتا ہے۔ دل اللہ کی طرف کھنچ رہے ہوتے ہیں۔ آسمان سے انوار الٰہیہ کی بارش ہو رہی ہوتی ہے۔ اب کون ہے، جو اپنے تعلق کو اللہ سے جوڑے؟ کون ہے، جو اپنے آپ کو اللہ کی طرف متوجہ کرے؟
رمضان ’’تبتل الی اللہ‘‘ کا مہینہ ہے۔ اللہ کی طرف مکمل یک سوئی کو تبتل کہتے ہیں۔ اس لیے جس قدر ہوسکے اس کیفیت کو پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کے لیے خلوتوں کے لمحات سے فائدہ اٹھانا ضروری ہے۔ اگر درج ذیل کام کیے جائیں تو اس کیفیت میں کافی اضافہ ہوگا اور ہم اس کیفیت کو اپنے اوپر طاری ہوتی ہوئی محسوس کریں گے:

تلاوتِ قرآن: ماہِ رمضان میں سکون کی فضا میں ہم قرآن کے ساتھ بیٹھیں۔ سمجھ کراس کی تلاوت کریں۔ اس میں غور وفکر کریں۔ اس کی آیتوں سے اثر لیں۔ تلاوت سے اللہ کا ذکر، اس کی قدرت کا ذکر، اس کی عظمت کا ذکر، اس کی رحمت کا ذکر، اس کی شان کا بیان، اس کے کرشموں کا بیان، اس کی نعمتوں کا بیان جب بار بار ہوتا ہے تو اس سے ’’اللہ‘‘ اور بس’’اللہ‘‘ دل ودماغ پر چھایا رہتا ہے۔ یہی خدا اور بندے کے درمیان وہ رابطہ ہے جسے کسی بھی حال میں ٹوٹنا نہیں چاہیے۔ قرآن کی تلاوت اگر اس انداز سے کی جائے تو یقیناً ’’تبتل الی اللہ‘‘ کی کیفیت میں گونا گوں اضافہ ہوگا۔ ہاں یہ چیز ’’محنت وریاضت‘‘ چاہتی ہے۔

نمازِ تہجد: اس نماز کے ذریعے تبتل الی اللہ میں بڑی مدد ملتی ہے۔ ہم رات میں ذرا آرام کرکے اٹھ جائیں اور اس نماز کا اہتمام کریں۔ یہ خلوت کی وہ روحانی ونورانی عبادت ہے جس میں بندہ اپنے خدا سے ملاقات ومناجات کرتا ہے۔ اپنے دل کی بات دل دینے والے رب کے حضور پیش کرتا ہے۔ اللہ سے توبہ واستغفارکے ذریعے اس کی رحمت ومغفرت کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ رمضان میں نمازِ تہجد کا ادا کرنا بڑا آسان ہوجاتا ہے۔ اگر سحری سے ایک دوگھنٹے پہلے بے دار ہوجائیں تو اس نماز کو ادا کرنا کچھ بھی مشکل نہیں۔ کتنے اللہ والے ایسے ہیں جو وقتِ سَحَر کو یادِ الٰہی میں گزارتے ہیں۔ ہمیں بھی ان میں شامل ہوجانا چاہیے۔
اذکار ودعا: اللہ کا ذکر بہت بڑی چیز ہے۔ چاہے ذکرِ لسانی ہو یا ذکرِ قلبی۔ ذکر کے ذریعے بندہ کو اللہ کی طرف توجہ اور یک سوئی حاصل ہوتی ہے۔ اس لیے اذکار کے جتنے الفاظ یاد ہوں ان کے ذریعے اللہ کی یاد کو اپنے دل میں بسائیں۔ رمضان میں جہاں تک ممکن ہو اللہ سے خوب خوب دعائیں کریں۔ اس سے ایک طرف تبتل الی اللہ بڑھے گا تودوسری طرف اللہ کے سامنے اپنے دل کی باتیں پیش کرنے کا بھرپور موقع ملے گا۔ اب کون ہے جو یہ دعا کرے کہ: ’’اے اللہ! میرے دل کے کانوں کو اپنے ذکر کے لیے کھول دے‘‘ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کے کان کھولے، دل کی آنکھیں کھولے، دل کی عقل اور شعور کھولے اور ہمت و ارادہ مضبوط بنائے۔

اعتکاف: اعتکاف دراصل اپنے آپ کو خدا کے لیے وقف کردینے کا نام ہے۔ رمضان میں چند دنوں کے لیے جب بندہ اپنے آپ کومسجد میں قید کرلیتا ہے اور دنیا ومافیہا سے الگ تھلگ ہوجاتا ہے تو اللہ کی طرف ایسی یک سوئی حاصل ہوجاتی ہے جو لاکھ کوشش کے باوجودعام دنوں میں نصیب نہیں ہوتی۔ اس لیے اگر اعتکاف کی توفیق ملے تو ضرور اعتکاف کریں۔ مگر یہ اعتکاف رسمی نہ ہو۔ بے جان نہ ہو۔ بے روح نہ ہو۔ بے مقصد نہ ہو۔ اعتکاف میں جان اسی وقت پیدا ہوگی جب کہ معتکِف حضرات یہ پروگرام بنائیں کہ وہ اپنے اعتکاف کو بار آور بنائیں گے۔ وہ یہ طے کریں کہ اعتکاف کی حالت سے نکلتے نکلتے ان کے اندر ایک بڑی تبدیلی آچکی ہوگی۔ وہ یہ منصوبہ بنا کراعتکاف کریں کہ ہم اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کریں گے۔ ہر طرف سے کٹ کربس اسی کی طرف متوجہ رہیں گے۔ مادی دنیا سے کٹ کرروحانی دنیا سے جڑ جائیں گے۔ اسی غرض کے لیے توآپؐ، آپ کی ازواجِ مطہّرات اورصحابہ کرامؓ ہر سال رمضان المبارک میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ اسی شعور اوراسی جذبہ کے تحت معتکف حضرات کو اعتکاف کرنا چاہیے۔