مزید خبریں

رمضان المبارک‘ ایک پہلو

رمضان کی اہمیت کے حوالے سے ایک قابل توجہ پہلو اس مہینے میں تین چیزوں کا جمع ہونا ہے: 30 روزے، شبِ قدر اور آخری عشرے کی طاق راتیں۔ ایک ماہ کے مسلسل روزے ایک بھرپور تربیتی ورزش کا موقع دیتے ہیں۔ شبِ قدر رمضان کی ایک رات ہے جس میں قرآن نازل ہوا:
’’بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں نازل کیا‘‘۔ (القدر: 1)
نبی کریمؐ کے فرمان اور عمل کے مطابق یہ رات نماز، تلاوتِ قرآن اور دْعا میں بسر ہونی چاہیے۔ یہ اللہ کے حضور دْعا کرنے اور اس کی قبولیت کا بہترین موقع ہے، بلکہ اسی وجہ سے تو اسے ’قدر‘ کی رات کہا جا سکتا ہے، جب قسمت کے فیصلے ہوتے ہیں اور تقدیر لکھی جاتی ہے۔

آخری عشرہ، یعنی آخری دس روزے اور ان میں پانچ طاق راتیں شبِ قدر ان راتوں میں سے ایک رات ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے کہ شبِ قدر کی عبادت محض ایک رات کی نہیں بلکہ ایک ہزار مہینوں کی عبادت سے بھی بہتر ہے: ’’شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے‘‘۔ (القدر: 3)
اس رات کو ہم جو عبادت اور دعا کریں گے وہ ایک ہزار ماہ یا 83 سال، بالفاظ دیگر پوری زندگی، کی عبادت سے بھی زیادہ بہتر ہوگی۔ یہ اللہ کی ہم پر خاص عنایت ہے۔

فرماںبرداری، تقویٰ، صبر اور استقامت ہم کو اللہ کے قریب کرنے والی خوبیاں ہیں۔ پھر تلاوت قرآن، انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی سطح پر بھی، جو اگرچہ فرض تو نہیں تاہم تہجد اور تراویح قرآن سے تعلق کا اہم ذریعہ ہیں۔ مسلم تاریخ میں تراویح رمضان کے پورے دن کے پروگرام کا حصہ رہا ہے، ایک ادارہ ایک مستحکم روایت۔ دن بھر کے روزے کے بعد، رات کو آپ تراویح کے لیے اللہ کے حضور کھڑے ہو جاتے ہیں۔ 8 رکعات ہو یا 20، قرآن کی تلاوت اور سماعت پورے مہینے جاری رہتی ہے اور قرآن کے پیغام کو سننے اور سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔

روزے سے متعلق ایک بات بڑی منفرد ہے۔ ہر عبادت کا کوئی نہ کوئی ظاہری انداز ہوتا ہے۔ مثلاً نماز کی حرکات و سکنات ہیں، جو سب کو نظر آتی ہیں۔ مسجد میں نماز تو سب کے ساتھ اور سب کے سامنے ہوتی ہے۔ زکوٰۃ میں دو افراد، دینے اور لینے والے ہوتے ہیں۔ کچھ یہی معاملہ حج کا ہے۔ سب کو معلوم ہوتا ہے کہ کون حج پر جارہا ہے یا جا چکا ہے۔ مگر روزے کا صرف اللہ ہی کو پتا ہوتا ہے۔ دوسروں کے سامنے آپ کہہ سکتے ہیں کہ آپ کا روزہ ہے مگر اکیلے میں آپ چاہیں تو کچھ کھا سکتے ہیں۔ گو کوئی آپ کو نہیں دیکھ رہا ہوگا، مگر یہ خیال اور احساس کہ اللہ تو دیکھ رہا ہے، آپ کو کچھ کھانے یا پینے نہیں دیتا۔ یہ ہے اللہ سے براہ راست تعلق، اس کی ہدایت کی تعمیل!

اس لیے اللہ نے فرمایا ہے کہ ہر نیکی کا بدلہ ہے۔ دس گنا، ستر گنا، سات سو گنا، یا اس سے بھی زیادہ۔ مگر روزے کا بدلہ اور اجر دینا میری خاص عنایت ہے۔ اس کا اجر لا محدود ہوگا!
رسول کریمؐ نے فرمایا، اللہ فرماتا ہے کہ انسان کا ہر نیک عمل خود اسی کے لیے ہے سوائے روزے کے، کہ وہ خاص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ (صحیح بخاری)
روزہ ایمان کے شعور اور احتساب کے احساس کے ساتھ رکھا جائے۔ ایمان سے مراد ہے خالص اللہ کے لیے، نہ کہ لوگوں کے لیے یا کسی اور غرض سے۔ اور احتساب کا مطلب ہے کہ پابندی، اجازت، جائز و ناجائز سب کو اللہ کی رضا کی خاطر قبول کیا جائے۔ روزمرہ زندگی میں ہم سے غلطیاں اور بھول چْوک ہوتی رہتی ہے، ہم کبھی کچھ ایسا کہہ جاتے ہیں جو نہیں کہنا چاہیے تھا، مگر رمضان میں ہمیں غلط کاموں اور باتوں سے بچنے کا کچھ زیادہ ہی خیال رکھنا چاہیے۔

نبی کریمؐ نے فرمایا ہے کہ: اگر کوئی تمھیں بْرا بھلا کہے، یا گالم گلوچ کرے، یا لڑے جھگڑے، تو اس کی بات یا حرکت کا جواب نہ دو بلکہ کہو کہ ’’میں تو روزے سے ہوں‘‘۔ روزہ تو تزکیۂ نفس ہے، اخلاقی تربیت ہے: ’’اگر کوئی شخص اس کو گالی دے یا لڑنا چاہے تو اس کا جواب صرف یہ ہو کہ میں ایک روزے دار آدمی ہوں‘‘۔ (بخاری)

روزے کا ظاہری پہلو یہ ہے کہ بھوک لگنے پر آپ کو ان لوگوں کا اور ان کی حالت کا خیال آتا ہے جو معاشرے میں ہمارے درمیان موجود تو ہیں مگر بھوکے پیاسے اور سہولتوں سے محروم۔ ہم میں ان کی مدد کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ ہم زندگی میں جو کچھ کرتے ہیں، یا نہیں کرتے، اس کے اثرات کا ہمیں ہمیشہ احساس رہنا چاہیے۔نبی کریمؐ نے فرمایا:
’’جو کوئی شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور حصول ثواب کی نیت سے عبادت میں کھڑا ہو اس کے تمام پچھلے گناہ بخش دیے جائیں گے، اور جس نے رمضان کے روزے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رکھے اس کے اگلے تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے‘‘۔ (صحیح بخاری)