مزید خبریں

افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

روزہ
ان مقاصد کی اہمیت اسلام میں اتنی زیادہ ہے کہ انھیں حاصل کرنے کے لیے صرف نماز کو کافی نہ سمجھا گیا اس رکن کو مزید تقویت پہنچانے کے لیے ایک دوسرے رکن ’’روزہ‘‘ کا بھی اضافہ کر دیا گیا ہے، نماز کی طرح یہ روزہ بھی قدیم ترین زمانہ سے اسلام کا رکن رہا ہے۔ اگرچہ تفصیلی احکام کے لحاظ سے اس کی شکلیں مختلف رہی ہیں مگر جہاںتک نفس روزہ کا تعلق ہے وہ ہمیشہ الٰہی شریعتوں کا جزو لاینفک ہی رہا۔ تمام انبیاء علیہم السلام کے مذہب میں یہ فرض کی حیثیت سے شامل تھا۔ جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے:

’’تم پر روزے فرض کر دیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیا کے پیروئوں پر فرض کیے گئے تھے‘‘۔ (البقرہ: 183)
اس سے یہ بات خود بخود مترشح ہوتی ہے کہ اسلام کی فطرت کے ساتھ اس طریق تربیت کو ضرور کوئی مناسبت ہے۔
زکوٰۃ اور حج کی طرح روزہ ایک مستقل جداگانہ نوعیت رکھنے والا رکن نہیں ہے بلکہ دراصل اس کا مزاج قریب قریب وہی ہے جو رکن صلوٰۃ کا ہے اور اسے رکنِ صلوٰۃ کے مددگار اور معاون ہی کی حیثیت سے لگایا گیا ہے۔ اس کا کام انھی اثرات کو زیادہ تیز اور زیادہ مستحکم کرنا ہے جو نماز سے انسانی زندگی پر مترتب ہوتے ہیں۔ نماز روزمرہ کا معمولی نظام تربیت ہے جو روز پانچ وقت تھوڑی تھوڑی دیر کے لیے آدمی کو اپنے اثر میں لیتا ہے۔ اور تعلیم و تربیت کی ہلکی ہلکی خوراکیں دے کر چھوڑ دیتا ہے اور روزہ سال بھر میں ایک مہینا کا غیر معمولی نظام تربیت ہے جو آدمی کو تقریباً 270 گھنٹے تک مسلسل اپنے مضبوط ڈسپلن کے شکنجہ میں کسے رکھتا ہے تاکہ روزانہ کی معمولی تربیت میں جو اثرات خفیف تھے وہ شدید ہو جائیں۔ یہ غیر معمولی نظام تربیت کس طرح اپنا کام کرتا ہے، اور کس کس ڈھنگ سے نفس انسانی پر مطلوب اثر ڈالتا ہے، اس کا تفصیلی جائزہ ہم ان صفحات میں لینا چاہتے ہیں۔ (اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر)
٭…٭…٭
روزے کے اثرات
روزے کا قانون یہ ہے کہ آخر شب طلوع سحر کی پہلی علامات ظاہر ہوتے ہی آدمی پر یکایک کھانا پینا اور مباشرت کرنا حرام ہو جاتا ہے اور غروب آفتاب تک پورا دن حرام رہتا ہے۔ اس دوران میں پانی کا ایک قطرہ اور خوراک کا ایک ریزہ تک قصدًاحلق سے اْتارنے کی اجازت نہیں ہوتی اور زوجین کے لیے ایک دوسرے سے قضائے شہوت کرنا بھی حرام ہوتا ہے۔ پھر شام کو ایک خاص وقت آتے ہی اچانک حرمت کا بند ٹوٹ جاتا ہے۔ وہ سب چیزیں جو ایک لمحہ پہلے تک حرام تھیں یکایک حلال ہو جاتی ہیں اور رات بھر حلال رہتی ہیں، یہاں تک کہ دوسرے روز کی مقررہ ساعت آتے ہی پھر حرمت کا قفل لگ جاتا ہے۔ ماہ رمضان کی پہلی تاریخ سے یہ عمل شروع ہوتا ہے اور ایک مہینے تک مسلسل اس کی تکرار جاری رہتی ہے۔ گویا پورے تیس دن آدمی ایک شدید ڈسپلن کے ماتحت رکھا جاتا ہے۔ مقرر وقت تک سحری کرے، مقرر وقت پر افطار کرے، جب تک اجازت ہے، اپنی خواہشات نفس پوری کرتا رہے اور جب اجازت سلب کر لی جائے تو ہر اس چیز سے رک جائے جس سے منع کیا گیا ہے۔ (اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر)