مزید خبریں

روزے کا مقصد اور حقیقت

اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں زندگی میں ایک مرتبہ پھر رمضان کے روزے رکھنے کا موقع عطا فرمایا۔ اللہ ہمیں روزے کی حقیقت سمجھنے، اس پر عمل اور بھرپور فائدہ اْٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔
روزہ ایک فرض عبادت ہے۔ اس کا بنیادی مقصد انسان میں تقویٰ پیدا کرنا ہے۔ کھانے پینے سے پرہیز تقویٰ کے حصول کا ایک ذریعہ ہے:

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کر دیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیائؑ کے پیرووں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی‘‘۔ (البقرہ: 183)
صوم کا مطلب ہے (اپنے آپ کو ) روکنا ا ور اس کے معنی صبر ہیں۔ صبر کا کم سے کم تقاضا حرام سے رکنا ہے، اور مزید یہ کہ اللہ اور رسولؐ کے احکام کی تعمیل کی جائے۔

رمضان کے مہینے کی عظمت
رمضان کی عظمت قرآن کی وجہ سے ہے۔ اس میں قرآن نازل ہوا اور اس میں لیلۃ القدر ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ نے فرمایا: ’’ابن آدم کا ہر عمل اس کے لیے کئی گنا بڑھایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک نیکی دس سے سات سو گنا تک بڑھائی جاتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزے کا معاملہ اس سے جدا ہے کیونکہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔ (متفق علیہ)

قرآن اور رمضان
سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ نے فرمایا: ’’جس نے رمضان کے روزے رکھے ایمان اور خود احتسابی کے ساتھ اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے اور جو رمضان کی راتوں میں کھڑا رہا (قرآن سننے اور سنانے کے لیے) ایمان اور خود احتسابی کے ساتھ اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے‘‘۔ (بخاری، مسلم)
عبداللہؓ بن عمرو کی روایت کردہ حدیث میں ہے: ’’روزہ اور قرآن (قیامت کے دن) بندے کے حق میں شفاعت کریں گے۔ روزہ عرض کرے گا: اے رب میں نے اس شخص کو کھانے پینے اور خواہشاتِ نفس سے روکھے رکھا تو اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما! اور قرآن یہ کہے گا کہ میں نے اسے رات کے وقت سونے (اور آرام کرنے) سے روکے رکھا تو اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما! چنانچہ دونوں کی شفاعت قبول کر لی جائے گی اور اس کے لیے جنت اور مغفرت کا فیصلہ فرما دیا جائے گا‘‘۔ پس رمضان میں خصوصی طور پر قرآن سے جڑنے، اس کی تلاوت کرنے اور اس کو سمجھ کر پڑھنے کا اہتمام کیا جائے۔

روزے کی حقیقت
رسولؐ کی درج ذیل احادیث میں روزے کی حقیقت بیان کی گئی ہے:
رسولؐ نے فرمایا: جس شخص نے روزے کی حالت میں بے ہودہ باتیں (مثلاً: غیبت، بہتان، تہمت، گالی گلوچ، لعن طعن، غلط بیانی وغیرہ) اور گناہ کا کام نہیں چھوڑا، تو اللہ تعالیٰ کو کچھ حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑدے۔ (بخاری)
ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ نے فرمایا کہ کتنے ہی روزے دار ہیں کہ ان کو اپنے روزے سے سوائے بھوک پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا کیونکہ وہ روزے میں بھی بدگوئی، بدنظری اور بدعملی نہیں چھوڑتے، اور کتنے ہی رات کو تہجد میں قیام کرنے والے ہیں، جن کو اپنے قیام سے ماسوا جاگنے کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ (دارمی، مشکوۃ)

ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ نے فرمایا: ’’روزہ ڈھال ہے (کہ نفس و شیطان کے حملے سے بھی بچاتا ہے، اور گناہوں سے بھی باز رکھتا ہے، اور قیامت میں دوزخ کی آگ سے بھی بچائے گا)، پس جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو نہ تو ناشائستہ بات کرے، نہ شور مچائے۔ اگر کوئی شخص اس سے گالی گلوچ کرے یا لڑائی جھگڑا کرے تو دل میں کہے یا زبان سے اس کو کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں (اس لیے تجھ کو جواب نہیں دے سکتا، کہ روزہ اس میں مانع ہے)۔ (بخاری ومسلم، مشکوٰۃ)
روزہ ڈھال ہے جب تک (تم) اس میں سوراخ نہ کر دو۔(نسائی)
مندرجہ بالا احادیث میں جن بْرے اعمال کا ذکر کیا گیا ہے وہی اس ڈھال کے سوراخ ہیں جن سے روزے کی افادیت اسی طرح متاثر ہوتی ہے جیسے ڈھال میں سوراخ ہو جائے تو وہ بیکار ہوجاتی ہے۔

روزہ گزشتہ گناہوں کا کفّارہ
ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’جس نے رمضان کا روزہ رکھا، اور اس کی حدود کو پہچانا، اور جن چیزوں سے پرہیز کرنا چاہیے ان سے پرہیز کیا، تو یہ روزہ اس کے گزشتہ گناہوں کا کفارہ ہوگا‘‘۔ (صحیح ابنِ حبان، بیہقی) یعنی کھانے پینے سے رْکنے کے ساتھ ساتھ بْرے اعمال سے بھی رکا جائے اور منہ کے روزے کے ساتھ دوسرے اعضا کا روزہ بھی ہونا ضروری ہے۔

حقیقی روزہ: وہ روزہ ہے جس میں آنکھ، زبان، کان، ہاتھ پاؤں اور دیگر اعضا کے گناہوں سے بچا جائے اور یہی ان اعضا کا روزہ ہے اور یہی حقیقی روزہ ہے جس پر اللہ سے پورے اجر کی امید کی جا سکتی ہے اور جو زندگی میں تبدیلی کا باعث بھی بنے گا۔
آنکھ کا روزہ: ’’اے نبیؐ! مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ اْن کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اْس سے باخبر رہتا ہے‘‘۔ (النور: 30)

آپؐ کا ارشاد ہے کہ نظر، شیطان کے تیروں میں سے ایک زہر میں بجھا ہوا تیر ہے، پس جس نے اللہ تعالیٰ کے خوف سے نظرِ بد کو ترک کر دیا، اللہ تعالیٰ اس کو ایسا ایمان نصیب فرمائیں گے کہ اس کی حلاوت کو اپنے دل میں محسوس کرے گا۔ (رواہ الحاکم)
کان کا روزہ: حرام اور مکروہ چیزوں کے سننے سے پرہیز رکھے، کیونکہ جو بات زبان سے کہنا حرام ہے اس کا سننا بھی حرام ہے۔

زبان کا روزہ: زبان کی حفاظت کرے اور اس کو بے ہودہ باتوں، جھوٹ، غیبت، چغلی، جھوٹی قسم اور لڑائی جھگڑے سے محفوظ رکھے۔ اسے خاموشی کا پابند بنائے اور ذکر و تلاوت میں مشغول رکھے۔ آپؐ کا ارشاد ہے کہ ’’روزہ ڈھال ہے، پس جب تم میں کسی کا روزہ ہو تو نہ کوئی بے ہودہ بات کرے، نہ جہالت کا کوئی کا م کرے، اور اگر اس سے کوئی شخص لڑے جھگڑے یا اسے گالی دے تو کہہ دے کہ میر ا روزہ ہے‘‘۔ ( بخاری)
کس قدر عجیب بات ہے کہ اللہ کے حکم پر ہم روزے میں سحری سے لے کر افطاری تک حلال کھانے سے تو پرہیز کرتے ہیں لیکن اسی اللہ نے قرآن مجید میں جس چیز (یعنی غیبت) کو مْردہ بھائی کا گوشت کھانا قرار دیا ہے، اس حرام کو ہم رغبت سے کھاتے ہیں

، نعوذ بک من ذٰلک!
’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، بہت گمان کرنے سے پرہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ تجسّس نہ کرو۔ اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے۔کیا تمھارے اندر کوئی ایسا ہے جو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا؟ دیکھو، تم خود اس سے گھِن کھاتے ہو۔ اللہ سے ڈرو، اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے‘‘۔ (الحجرات: 12)
منہ اور پیٹ کا روزہ: افطارکے وقت حلال کھانے میں بھی بسیار خوری نہ کرے۔ رسولؐ کا ارشاد ہے کہ ’’پیٹ سے بدتر کوئی برتن نہیں، جس کو آدمی بھرے‘‘۔ (احمد والترمذی وابن ماجہ والحاکم) اگر شام کو دن بھر کی ساری کسر پوری کرلی تو روزے سے شیطان کو مغلوب کرنے اور نفس کی شہوانی قوت توڑنے کا مقصد حاصل کرنا مشکل ہوگا۔ افطار کے وقت پیٹ میں کوئی مشتبہ چیز نہ ڈالے، کیونکہ اس کے کوئی معنی نہیں کہ دن بھر تو حلال سے روزہ رکھا اور شام کو حرام چیز سے روزہ کھولا یا روزہ کھولتے ہی حرام پینے یا کھانے میں مشغول ہو جائے۔

افطار کے وقت روزے دار حالتِ خوف اور امید کے درمیان مضطرب رہے کہ نہ معلوم اس کا روزہ اللہ تعالیٰ کے یہاں مقبول ہوا یا مردْود؟ بلکہ یہی کیفیت ہر عبادت کے بعد ہونی چاہیے۔ اور مقدور بھر کوشش کے بعد اللہ پر اچھا گمان رکھا جائے۔
دل کا روزہ: دل کا حقیقی اور اعلیٰ روزہ یہ ہے کہ دْنیوی افکار سے قلب کا روزہ ہو، اور ماسوا اللہ سے اس کو بالکل ہی روک دیا جائے۔ البتہ وہ دْنیا جو دین کے لیے مقصود ہو، وہ تو دْنیا نہیں بلکہ توشۂ آخرت ہے۔ چار چیزوں کی کثرت سے پرہیز کیا جائے: طعام، کلام، نیند اور اختلاط اور ان راستوں کی نگہبانی کی جائے جہاں سے دل کی بیمار ی لاحق ہونے کا خدشہ ہوتا ہے یعنی آنکھ، کان، زبان اور شرمگاہ کی حفاظت کی جائے۔

بقیہ اعضاء کا روزہ: ہاتھ پاؤں اور دیگر اعضا کو حرام اور مکروہ کاموں سے محفوظ رکھنا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمھیں علم نہ ہو۔ یقینا آنکھ، کان اور دل سب ہی کی باز پْرس ہونی ہے‘‘۔ (بنی اسرائیل: 36)
رمضان کی آخری شب مغفرت کا پروانہ ہے: ہمیں لیلۃ القدر کی فضیلت تو یاد رہتی ہے اور ہونی بھی چاہیے لیکن ابوہریرہؓ سے مروی اس حدیث کو بھی نہیں بھولنا چاہیے جس میں پیارے نبیؐ نے فرمایا کہ ’’بخشش کی جاتی ہے میر ی اْمّت کی رمضان کی آخری رات میں۔ عر ض کیا گیا: یا رسول اللہ! کیا یہ لیلۃ القدر ہوتی ہے؟ فرمایا:نہیں۔ بلکہ کا م کرنے والے کی مزدوری اس کا کا م پورا ہونے پر ادا کر دی جاتی ہے‘‘۔ (مسنداحمد) یعنی جب وہ پورے اہتمام سے حقیقی روزہ رکھتے ہیں تو رمضان المبارک کی آخری شب اْجرت اور انعام کے طور پر ان کی بخشش کر دی جاتی ہے۔ ہمیں یہ رات فضولیات اور خرافات میں نہیں بلکہ عبادات اور دوسرے نیک اعمال میں گزارنی چاہیے کہ معلوم نہیں پھر یہ رات ہمیں نصیب ہو یا نہ ہو۔

اللہ ہمیں روزے کی حقیقت اور اس کے مقصد کو سمجھنے کا فہم عطا فرمائے اور ایسا روزہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے جس سے ہم تقویٰ حاصل کر سکیں۔ اللہ ہمارے روزے قبول فرمائے اور ہمیں ان لوگوں میں شامل کرے جن کو روزے رکھنے پر بخشش کی بشارت دی گئی ہے۔ آمین یا ربّ العالمین!