مزید خبریں

رمضان اور تلاوتِ قرآن

رمضان المبارک کا یہ بھی حق ہے کہ اس ماہ ِمقدس میں قرآنِ مقدس کی تلاوت کثرت سے کی جائے، قرآن مجید میں حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ رمضان ہی کے مبارک مہینہ میں قرآن کریم نازل کیا گیا ہے اس لیے اس مہینے میں کثرت سے تلاوت کا اہتمام ہونا چاہیے، خود سرکارِ دوعالمؐ سے بھی خاص طور پر اس ماہ میں قرآن پاک کی تلاوت اور اس کے دور کا اہتمام منقول ومروی ہے۔ سیدنا عبداللہ ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اکرمؐ لوگوں میں سب سے زیادہ نیکیوں میں پہل کرنے والے تھے اور رمضان المبارک میں یہ وصف اور یہ شوق زیادہ بڑھ جایا کرتا تھا۔ جبرئیل علیہ السلام رمضان المبارک کی ہر رات میں سرکارِ دوعالمؐ کی خدمت میں تشریف لاتے اور سرکار ان کو قرآنِ پاک سناتے اور جب جبریل علیہ السلام حاضر ہوتے تو آپؐ نیکیوں میں تیز ہواؤں سے بھی زیادہ تیز رفتار ہو جاتے تھے۔ (بخاری ومسلم) بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ ہرسال رمضان المبارک میں رسول اکرمؐ قرآن پاک جبریل علیہ السلام کو سناتے تھے اور جبریل علیہ السلام نبی اکرمؐ کو سناتے تھے اور جس سال رسول اکرمؐ دنیا سے پردہ فرما گئے دو مرتبہ قرآن پاک سنائے ہیں۔

ان روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان شریف میں خاص طور پر قرآن پاک کی تلاوت کی مقدار بڑھا دینی چاہیے، اور مہینوں سے زیادہ اس ماہ میں قرآن کی تلاوت ہونی چاہیے، تلاوت کے ساتھ ساتھ قرآن پاک کا استماع بھی ہونا چاہے، سماعت قرآن میں بھی ثواب ہے، سرکارِ دوعالمؐ بھی سماعت ِقرآن کا اہتمام فرماتے تھے۔ نیز یہ بھی منقول ہے کہ ایک بار آپؐ نے سیدنا عبداللہ ابن مسعودؓ سے فرمایا کہ تم مجھے قرآن سناؤ تو انہوں نے حیرت سے پوچھا کہ یارسول اللہ! میں آپ کو قرآن سناؤں جب کہ قرآن آپؐ پر نازل ہوا ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ میں سننا چاہتا ہوں تم مجھے سناؤ، انہو ں نے تعمیل حکم میں سورۂ نساء کی تلاوت شروع کی پڑھتے پڑھتے جب اس آیت پر پہنچے فَکَیفَ اِذَا جِئنَا … الخ آپؐ نے فرمایا بس کرو، سیدنا عبداللہ ابن مسعودؓ نے نظر اٹھا کر دیکھا

کہ سرکارِدوعالمؐ کی دونوں آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور آپؐ رو رہے تھے۔ (بخاری ومسلم)
صحابہ کرامؓ بھی صرف قرآن پاک سننے اور سنانے کے لیے بھی جمع ہوکر بیٹھتے تھے۔ سیدنا ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ میں مسجد نبوی میں ضعفاء ومہاجرین کی ایک مجلس میں شریک ہوا جس میں شریک صحابہ کرامؓ کے بدن پر لباس بھی برابر نہیں تھا، اس میں ایک قاری صحابی قرآن مجید سنا رہے تھے کہ اس دوران رسول اکرمؐ تشریف لائے اور کھڑے ہوگئے تو قاری صاحب نے قرأت روک دی، نبیؐ نے سلام فرمایا اور پوچھا کہ تم لوگ کیا کر رہے ہو؟ تو انہوں نے جواب دیا: ہم اللہ کی کتاب سن رہے ہیں۔ تو نبی اکرمؐ نے فرمایا: اللہ کا شکر ہے کہ میری امت میں ایسے لوگ بھی ہیں جن میں بیٹھنے کا مجھے حکم دیا گیا ہے، یہ کہہ کر آپؐ صحابہ کرامؓ کے درمیان بیٹھ گئے اور پھر فرمایا: اے ضعفاء و مہاجرین! تم کو خوشخبری ہے قیامت کے دن بڑے نور کی؛ پھر فرمایا: اور تم عام مالداروں سے آدھا دن یعنی پانچ سو سال پہلے جنت میں داخل ہوگے۔

اور یہ استماع تلاوت اور سماعت قرآن کسی رسم کے التزام اور رواج کی تابعداری کے بغیر ہو اور اعلان واشتہار کے بغیر ہو اور یہ کہ اس طرح کا استماع اور سماعت رمضان ہی کی کوئی خصوصیت نہیں بلکہ سال بھر کی عبادات اور معمولات میں سے ہے، جب بھی موقع ہو نہایت سادگی اور اخلاص کے ساتھ سننے کا شوق وذوق رکھنے والے حضرات اپنے سے جمع ہوکر تجوید کے ساتھ تلاوت کرنے والے قاری صاحب سے یا ایسے ہی خواتین کسی قاریہ سے تلاوت سننا چاہیں تو سن سکتے ہیں اور اس طرح سننے میں اجر وثواب بھی ہے اور دلوں کا نکھار بھی ہے اور یہ کہ اس طرح کا استماع اور سماعت رمضان ہی کی کوئی خصوصیت نہیں بلکہ سال بھر کی عبادات اور معمولات میں سے ہے، باقی ہمارے زمانے میں سماعت قرآن کے حلقے جو رمضان کے ساتھ مخصوص ومتعین ہوگئے ہیں وہ محض رسمی ورواجی بن گئے ہیں، جس میں خلاف ادب خلاف احتیاط اور خلاف سنت بلکہ مکروہ وناجائز اور حرام اعمال کا ارتکاب بھی ہونے لگا ہے جو ’’نیکی برباد گناہ لازم‘‘ کے مصداق ہے۔