مزید خبریں

مسائلِ رمضان المبارک

٭روزے کی حالت میں مسواک کرنا جائز ہے۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’اگر یہ بات نہ ہوتی کہ میں اپنی امت پر مشقت ڈال دوں گا تو میں ہر مرتبہ وضو کے ساتھ انہیں مسواک کرنے کا حکم دیتا۔ ( بخاری)

٭قصداً قے کرنے سے روزہ ٹو ٹ جاتا ہے۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’جب روزے دار جان بوجھ کر قے کرے تو اس نے روزہ افطار کر دیا اور جب قے خود بخود آئے تو اس نے روزہ افطار نہیں کیا۔ (صحیح ابن خزیمۃ)

٭بھول کر کھا پی لینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’جب کوئی بھول جائے اور کھا پی لے تو اپنے روزے کو مکمل کرے، کیونکہ اسے اللہ تعالیٰ نے کھلایا پلایا ہے۔ (بخاری)

٭روزے کی حالت میں سرمہ لگایا جاسکتا ہے۔ سیدنا انس بن مالکؓ روزے کی حالت میں سرمہ لگایا کرتے تھے۔

٭ سحری کے دوران فجر کی اذان ہو جائے تو اپنی حاجت پوری کر لینی چاہیے۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی اذان ( فجر) سنے اور برتن اس کے ہاتھ میں ہو تو اسے اپنی حاجت پوری کیے بغیر نہ رکھے۔ (ابوداؤد)

٭ پیاس یا گرمی کی وجہ سے روزے دار اپنے اوپر پانی ڈال سکتا ہے۔ ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہؐ کو مقام عروج میں دیکھا، آپؐ روزے سے تھے اور پیاس یا گرمی کی وجہ سے اپنے آپ پر پانی ڈال رہے تھے۔ (ابوداؤد)

٭ حاملہ اور دودھ پلانے والی عورتیں اگر رمضان کا روزہ رکھنے میں تکلیف محسوس کریں تو وہ رمضان کے علاوہ دوسرے دنوں میں روزے رکھ سکتی ہیں۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے مسافر کو آدھی نماز معاف کر دی ہے اور مسافر، حاملہ اور دودھ پلانے والی کو روزہ یا روزے معاف کر دیے ہیں۔ (ابن ماجہ)

٭حائضہ عورت روزہ نہیں رکھے گی۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’کیا ایسا نہیں کہ جب وہ (عورت) حائضہ ہوتی ہے تو نہ نماز پڑھتی ہے اور نہ روزے رکھتی ہے، یہ اس کے دین کے نقصان میں سے ہے۔ (بخاری)

٭سفر میں روزہ رکھا بھی جاسکتا ہے اور چھوڑا بھی جاسکتا ہے۔ سیدنا حمزہ بن عمرو الاسلمیؓ نے رسول اللہؐ نے سے دریافت کیا: ’’کیا میں سفر میں روزہ رکھ سکتا ہوں؟ وہ روزے کثرت سے رکھا کرتے تھے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’اگر تو چاہے تو روزہ رکھ لے اور اگر تو چاہے تو چھوڑ دے۔ (بخاری)

٭اگر کوئی فوت ہو جائے اور اس کے ذمے رمضان کے روزے ہوں تو اس کی طر ف سے روزے رکھے جائیں گے۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’کوئی بندہ اس حالت میں فوت ہو کہ اس کے ذمے روزے ہوں تو اس کے طرف سے اس کا ولی روزے رکھے گا۔ (مسلم)

٭اگر کسی وجہ سے رمضان کے روزے رہ جائیں تو پورے سال اگلا رمضان شروع ہونے سے پہلے قضا ادا کی جاسکتی ہے۔ سیدہ عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ میرے ذمے رمضان کے کچھ روزے تھے تو میں ان کی قضائی صرف شعبان میں دے سکی۔ (بخاری)

٭روزے کی حالت میں جھوٹ سے بچنا چاہیے۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’جس شخص نے جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو اللہ تعالی کو اس بات کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنے کھانا پینا چھوڑ دے۔ (بخاری)

٭روزے کی حالت میں لغو و بے ہودہ کاموں اور لڑائی جھگڑوں سے پرہیز کرنا چاہیے۔ کیونکہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’روزہ صرف کھانے پینے ہی سے (بچنا) نہیں ہے، بے شک روزہ تو لغو کاموں اور رفث (بے ہودہ و فحش) باتوں سے (بچنا) بھی ہے۔ سو اگر کوئی تجھے گالی دے، یا تیرے ساتھ جہالت سے پیش آئے تو تجھے کہنا چاہے کہ میں تو روزے سے ہوں، میں تو روزے دار ہوں۔ (صحیح ابن خزیمۃ)

٭عیدین کے دن روزہ رکھنا منع ہے۔ سیدنا ابو سعید خدریؓ بیان کرتے ہیں رسول اللہؐ نے عیدالفطر اور قربانی کے دن روزہ رکھنے سے منع کیا ہے۔ (بخاری)

٭آخری عشرے میں عبادت کے لیے کمر کس لینی چاہیے۔ سیدہ عائشہؓ بیان کرتی ہیں: ’’جب آخری عشرہ شروع ہو جاتا تو آپؐ اپنی چارد کس لیتے (یعنی عبادت کے لیے) تیار ہو جاتے اور راتوں کو بیدار ہوتے اور اپنے گھر والوں کو بھی بیدار کرتے۔ (بخاری)

٭اعتکاف رمضان کے آخری عشرے میں ہوتا ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا کرتے تھے۔ (مسلم)

٭ اعتکاف صرف مسجد میں ہوتا ہے۔ نافعؓ بیان کرتے ہیں کہ مجھے سیدنا عبداللہ بن عمرؓ نے مسجد کی وہ جگہ دکھائی جہاں رسول اللہؐ اعتکاف کیا کرتے تھے۔ (مسلم)

٭ شب قدر کا قیام گناہوں کی بخشش کا ذریعہ ہے۔ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص نے قدر کی رات قیام کیا ایمان کی حالت میں، اور اللہ کی رضا مندی کے حصول کے لیے، تو اس کے سارے پہلے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔ (بخاری)

٭صدقہ فطر کی بہت زیادہ فضیلت ہے، اسے ضرور ادا کرنا چاہے۔ سیدنا عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ نے روزے کو لغو اور نامناسب باتوںسے پاک کرنے کے لیے اور مسکینوں کو کھانا کھالنے کے لیے صدقہ فطر مقرر فرمایا۔ (ابن ماجہ)

٭صدقہ فطر ادا کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے، چاہے بچہ یا غلام ہی کیوں نہ ہو۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ نے مسلمانوں کے ہر آزاد وغلام، مرد، عورت اور بچے بوڑھے پر کھجوروں یا جو میں سے ایک صاع صدقہ فطر دینا لازم کیا ہے۔ (بخاری)

٭صدقہ فطر نماز عید سے قبل ہر صورت ادا کردینا چاہیے۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں: ’’رسول اللہؐ نے ہمیں صدقہ فطر کے بارے میں حکم دیا ہے کہ اسے لوگوں کے نماز عید کے لیے نکلنے سے پہلے پہلے ادا کر دیا جائے۔ (ابوداؤد)

٭نماز عید کے بعد ادا کیا گیا فطرانہ عام صدقہ ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ نے صدقہ فطر کو فرض قرار دیا، تاکہ روزے کے لیے لغو اور بے ہودہ اقوال و افعال سے پاکیزگی حاصل ہو جائے اور مسکینوں کو طعام حاصل ہو۔ چنانچہ جس نے اسے نماز (عید) سے پہلے ادا کر دیا تو یہ ایسی زکوٰۃ ہے جو قبول کر لی گئی اور جس نے اسے نماز عید کے بعد ادا کیا تو یہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہے۔ (ابوداؤد)

٭صدقہ فطر کی مقدار ایک صاع ہے۔ سیدنا ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ نے رمضان میں صدقہ فطر فرض فرمایا، اس طرح کہ ہر مسلمان آزاد، غلام، مرد اور عورت کی طرف سے کھجور یا جو کا ایک صاع ہو جائے۔ (ابوداؤد)

٭بہتر یہی ہے کہ صدقہ فطر میں کوئی جنس دی جائے۔ البتہ اس جنس کے عوض نقدی بھی دی جاسکتی ہے۔