مزید خبریں

افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

روزہ اور قرآن
سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: روزہ اور قرآن بندے کی شفاعت کرتے ہیں۔ روزہ کہتا ہے کہ اے رب! میں نے اس کو دن بھر کھانے (پینے) اور شہوات سے روکے رکھا، تو میری سفارش اس کے حق میں قبول فرما، اور قرآن کہتا ہے کہ (اے رب!) میں نے اسے رات کو سونے سے روکے رکھا، تو اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما، پس دونوں کی شفاعت قبول فرما لی جائے گی۔ (بیہقی)

اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ روزہ اور قرآن کوئی جان دار ہیں، جو کھڑے ہوکر یہ بات کہتے ہیں بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ ایک روزہ دار کا روزہ رکھنا اور قرآن پڑھنے والے کا قرآن پڑھنا دراصل خود اپنے اندر ایک شفاعت رکھتا ہے۔ جب روزے دار اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے کہ اس بندے نے روزہ رکھا تو اس پیشی کے ساتھ ساتھ روزے کی یہ شفاعت بھی موجود ہوتی ہے کہ یہ بندہ آپ کی خاطر دن بھر بھوکا پیاسا رہا۔ یہ چھپ کر کھا پی سکتا تھا اور دوسری خواہشات بھی پوری کرسکتا تھا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ اس بندے نے چونکہ آپ کی خاطر دن بھر بھوک پیاس برداشت کی ہے اور اپنی دوسری خواہشات پر بھی پابندیاں عائد کیے رکھی ہیں، اس لیے اس کے قصور معاف فرما دیجیے۔ اسی طرح ایک شخص رات کو جو قرآن مجید پڑھتا ہے، جب وہ قرآن اللہ کے حضور پیش کیا جاتا ہے کہ آج اس بندے نے اتنا قرآن پڑھا ہے تو قرآن کا وہ پیش کیا جانا ہی خود اپنے اندر ایک شفاعت رکھتا ہے، اور وہ شفاعت یہ ہے کہ اس بندے نے دن بھر کے روزے سے تھکا ماندہ ہونے کے باوجود آپ کی رضاجوئی کی خاطر رات کو (نماز میں) کھڑے ہوکر قرآن پڑھا، اس لیے اس کے گناہ معاف کردیے جائیں۔

ظاہر بات ہے کہ جس طرح رسول اللہؐ قیامت کے روز مومنین صالحین کی شفاعت فرمائیں گے، اسی طرح خود آدمی کے اعمال بھی اس کے حق میں شفیع ہوتے ہیں۔ آدمی کے اعمال خدا کے حضور یہ شفاعت کرتے ہیں کہ یہ آدمی یہ یہ نیکیاں کرکے آیا ہے، اس لیے اسے بخش دیجیے اور اس سے درگزر فرمائیے۔ نبیؐ کے اس ارشاد کے مطابق: ’’اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے حق میں روزے اور قرآنِ مجید کی یہ شفاعتیں قبول فرما لیتا ہے‘‘۔
٭…٭…٭

تراویح
سیدنا اعرجؓ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ رمضان کے مہینے میں کفار پر لعنت کرتے تھے اور امام سورہ بقرہ آٹھ رکعت میں پڑھتے اور اگر وہ اس سورہ کو 21 رکعت میں ختم کرتے تو ہم سمجھتے کہ انھوں نے نماز میں تخفیف کی ہے (ایضاً)۔ حضرت عبداللہ بن ابوبکر روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابی بن کعبؓ سے سنا ہے وہ فرماتے ہیں کہ جب ہم رمضان میں قیامِ لیل سے فارغ ہوتے تو خادموں سے کہتے کہ کھانا لانے میں جلدی کرو تاکہ سحری چھوٹ نہ جائے۔ ایک دوسری روایت میں اس طرح ہے کہ فجر (صبح صادق) طلوع نہ ہوجائے۔ (موطا)

نمازِ تراویح کے بارے میں اکثر احادیث میں قیامِ لیل کا لفظ استعمال ہوا ہے جو بجاے خود اس بات کی دلیل ہے کہ قیام کرنے والا حسب توفیق قیام کرے۔ تعداد رکعات کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ مندرجہ بالا تینوں احادیث میں بھی مختلف تعداد کا بیان اس معاملے میں کسی پابندی کو ظاہر نہیں کرتا۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مقتدیوں کی آسانی اور رمضان المبارک میں قرآن کا دورانِ نماز پڑھنا اس بات کا متقاضی تھا کہ تعدادِ رکعات میں مناسب اضافہ کرلیا جائے تاکہ طویل قیام کے لیے لاٹھیوں کا سہارا نہ لینا پڑے۔ لہٰذا تراویح کے سلسلے میں جس قدر بھی اختلافی آرا سامنے آتی ہیں ان کی بنیاد پر کسی نص یا حکمِ رسالت کی نفی نہیں ہوتی۔
( درس حدیث مشکوٰۃ، باب الصلوٰۃ، مرتبین: میاں خورشید انور، بدرالدجیٰ خان)